"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ماہنامہ ’’بیاض‘‘

مشرف کے معاملے پر آئینی و قانونی تقاضے پورے کریں گے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مشرف کے معاملے میں آئینی و قانونی تقاضے پورے کریں گے‘‘ کیونکہ اگر موصوف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تو اس سے بھی آئینی و قانونی تقاضا پورا ہوتا ہے کیونکہ آئین میں اس کی ممانعت نہیں کی گئی۔ علاوہ ازیں جان چھڑانے کا اور کوئی طریقہ ہے بھی نہیں جبکہ جان بچانا فرض ہے اور ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''قانون سب کے لیے برابر ہے‘‘ اس لیے اگر دوسروں کو ای سی ایل سے نکالا جا سکتا ہے تو جنرل مشرف کو کیوں نہیں‘ اور اگر وہ ملک سے جا کر واپس نہیں آتے تو یہ ان کا معاملہ ہے جنہوں نے کہا ہے کہ موصوف کے ملک سے باہر جانے پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ قانون کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ سب کے لیے برابر ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کے لیے زیادہ ہی برابر ہوتا ہے اور اس ضمن میں کئی مثالیں ملکِ عزیز میں پہلے ہی موجود ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کریں گے... سرتاج عزیز 
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ''سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کریں گے‘‘ جن کی قیمت پیشگی ہی وصول کر چکے ہیں اور یہ بات انتہائی نامناسب ہوگی کہ قیمت تو وصول کر لیں لیکن مال نہ فراہم کریں جبکہ جس نیک مقصد کے لیے انہیں یہ ہتھیار درکار ہیں وہ چھوٹے ہتھیاروں سے ہی پورا ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی‘‘ اور اس مسئلے کے حل کے بغیر ہی بھارت کے ساتھ محبت کی جو پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں وہ اس لیے کہ یہ معاملہ دیگر اہم معاملات کی طرح ہم نے اللہ میاں پر چھوڑ رکھا ہے کیونکہ کچھ کام اللہ میاں کو بھی کرنا چاہئیں اور سارا بوجھ اس کے عاجز بندوں پر نہیں پڑنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارت سے دوستی اور تجارت پر فوج کے تحفظات ہیں‘‘ تاکہ بھارت کو یہ وضاحت ہو جائے کہ ابھی تک اسے انتہائی پسندیدہ ملک کیوں قرار نہیں دیا جا رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ 
دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے عوام کی 
تقدیر بدل جائے گی... حمزہ شہباز 
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر عوام کی تقدیر بدل دے گی‘‘ اور ساتھ ساتھ ہماری تقدیر بھی بدل دے گی حالانکہ وہ پہلے ہی اس قدر بدل چکی ہے کہ اس کے مزید بدلنے کی گنجائش ہی نہیں ہے لیکن تقدیر مرضی کی مالک ہے اور اب تک خود ہی بدلتی رہی ہے‘ ہم نے اسے بدلنے کے لیے کبھی نہیں کہا لیکن یہ اپنی عادت سے باز ہی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ''متاثرین کو متبادل رہائش‘ روزگار اور دیگر سہولیات دینے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘‘ اگرچہ منگلا ڈیم کے متاثرین ابھی تک اِدھر اُدھر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن وہ بھی مجبور ہیں کیونکہ آخر انہیں کچھ نہ کچھ تو کھانا ہی ہوا‘ روٹی نہیں تو دھکے ہی سہی۔ کم از کم بھوکوں مرنے سے تو یہ بدرجہا بہتر ہے‘ اس لیے کھانے کے لیے جو کچھ بھی میسر ہو‘ صبر شکر کر کے کھا لینا چاہیے کہ صابر و شاکر لوگوں کا یہی وتیرہ ہے اور قانونِ قدرت بھی یہی ہے۔ آپ اگلے روز ڈیم سائٹ کے دورہ پر مکینوں سے خطاب کر رہے تھے۔ 
ماہنامہ ''بیاض‘‘ 
بیاض حسبِ معمول پہلی تاریخ کو ہی نظر نواز ہو گیا اور اس زمانے میں اس باقاعدگی سے کسی ادبی پرچے کا شائع ہونا ایک معجزے سے کم نہیں ہے جبکہ ماہنامہ ''الحمرا‘‘ بھی اسی باقاعدگی سے ہر ماہ کی 12 تاریخ کو آپ کے دروازے پر آ دستک دیتا ہے جبکہ بڑے بڑے جغادری رسائل مہینوں کی تاخیر سے ہی چھپا کرتے ہیں۔ اس کے بانی ہمارے دوست اور شاعر خالد احمد تھے اور یہ پرچہ ان کی یاد میں اپنی بنیاد کا حق بھی بحسن و خوبی ادا کر رہا ہے۔ تازہ شمارے میں ابدال بیلہ پر گوشہ ہے جس میں احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ منشا یاد‘ شفیق الرحمن‘ وزیر آغا‘ کیول دھیر اور دیگران نے افسانہ نگار کے بارے میں اپنی ستائشی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ممتاز اطہر کے کلام کا انتخاب پیش کیا گیا ہے جبکہ دیگر تخلیق کاروں میں بشریٰ رحمن‘ نجیب احمد‘ روحی کنجاہی‘ سلمیٰ اعوان‘ جلیل عالی‘ عباس تابش اور اعجاز کنور راجہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں چھپنے والی شاہین مفتی کی غزل کے چند شعر: 
تیری آشفتہ بیانی سے گزر آئے ہیں 
لوگ تکلیفِ معانی سے گزر آئے ہیں 
جن کو از راہِ تفنن ہی تراشا تھا کبھی 
اب وہ کردار کہانی سے گزر آئے ہیں 
اب اسی شہر سے اٹھیں گے جنازے اپنے 
عرصۂ نقلِ مکانی سے گزر آئے ہیں 
ریت چبھنے لگی آنکھوں میں تو احساس ہوا 
منزلِ اشک فشانی سے گزر آئے ہیں 
وہ بھی الفت کو سمجھنے لگا اک کارِ زیاں 
ہم بھی اک لمحۂ فانی سے گزر آئے ہیں 
یہ جو تھک ہار کے پتھرائے ہوئے بیٹھے ہیں 
اپنے دریا کی روانی سے گزر آئے ہیں 
اب فقط جلوہ نمائی کا ہنر دیکھیں گے 
لطفِ پیغامِ زبانی سے گزر آئے ہیں 
آج کا مطلع 
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے 
لاکھ تو کہتا پھرے‘ میرا تو اپنا رنگ ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں