"ZIC" (space) message & send to 7575

جنرل صاحب کا بیان اور حکومت کی پریشانی

آرمی چیف کے بیان کو آج کل گفتگو ئے شہرکا درجہ حاصل ہے۔ جمہوریت کو خطرات کے اشارے دیے جا رہے ہیں‘ حکمرانوں کو محتاط رہنے کی تلقین بھی کی جا رہی ہے۔ فوج پر اگر تنقید ہو رہی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ کیوں پیدا ہو گیا ہے۔ فوج دوسرے اداروں کی طرح حکومت کا ذیلی ادارہ ہے۔ اتنے ہی احترام و وقار کا مستحق ہے جتنے کہ پارلیمنٹ سمیت دوسرے ادارے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی پر تنقید ہو سکتی ہے تو فوج اس سے مستثنیٰ کیوں؟ جبکہ عہدے کے لحاظ سے‘ آرمی چیف‘ سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس آئین میں درج ہے جس کے تحت یہ ملک چل رہا ہے۔ فوج کے حوالے سے خدشات محض اس لیے ہیں کہ یہ پہلے کئی بار اس خطرے کا ثبوت فراہم کر چکی ہے بلکہ ایک بار تو عدلیہ نے بھی فوج کے اس انتہائی اقدام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ فوجی ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا‘ جو خود اس معزز عدالت کو بھی حاصل نہیں تھا۔ اور یہ سب کچھ اس چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوا جو پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے۔ موصوف اپنے عہد میں عدل و انصاف کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ اب کتابیں تصنیف کر رہے ہیں؛ بلکہ سیاست میں آنے کا عزم بھی ظاہر کر چکے ہیںع 
تو بیرون در چہ کردی کہ درون خانہ آئی
دوسری ستم ظریفی یہ رہی کہ میڈیا کی طرف سے فوج کا اکثر اوقات مقتدر قوت کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اصل اقتدار فوج کے پاس ہے‘ حکومت کے پاس نہیں۔اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے بھی ایسے بیانات نظر سے گزرتے رہتے ہیں کہ فوج حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور فلاں فلاں مسئلے پر حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں حالانکہ جمہوری ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا اور یہ بات طے شدہ ہوتی ہے کہ فوج حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہوتا ہے‘ چنانچہ ایسے مضحکہ خیز بیانات کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آتے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں آئین اور جمہوریت کو کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر آئین حکومت کو ملک کے جملہ انتظامی اختیارات سے سرفراز کرتا ہے تو وہ انہیں استعمال کرنے سے کیوں خوفزدہ ہے۔ اس کا جواب نہایت آسان ہے کہ حکمران کرپٹ اور نااہل ہوتے ہیں۔ اقتدار کا مزہ چکھنے والے ہمارے لیڈروں میں کون ایسا ہے جس کے اثاثے ‘ گھر اور کاروبار باہر نہیں ہیں اور یہ ان کے اندر کا چور ہے جس نے انہیں بزدل بنا رکھا ہے۔ ان کا ٹریک ریکارڈ ہی ماشاء اللہ ایسا ہے کہ ان میں اخلاقی جرات نام کی کوئی چیز باقی رہ ہی نہیں گئی۔ ہر ایک نے حسب توفیق ابتدا میں آ کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے اور کسی کو صبر آ ہی نہیں رہا حالانکہ ان کی میگا کرپشن کی داستانیں چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس ملک میں گوڈے گوڈے غربت کیوں نہ ہو کہ ساری دولت تو اس کے حکمرانوں نے اکٹھی کر رکھی ہے جبکہ اقتدار میں آنے کا واحد مقصد ہی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ہر نیا حکمران انتخابات کے موقع پر اپنے حریفوں سے حرام کا یہ مال نکلوانے کے دعوے کرتا ہے لیکن کرسی سنبھالتے ہی برف میں لگ کر بیٹھ جاتا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر اس نے دوسرے کو چھیڑا تو اپنی باری آنے پر وہ بھی کھایا ہوا سارا مال اگلوالے گا‘ چنانچہ سارا کاروبار اسی پر امن بقائے باہمی کے فلسفے کے تحت جاری و ساری رہتا ہے۔
فوج اور فوجی ڈکٹیٹروں پر اگرچہ کرپشن کا کوئی ایسا واضح الزام نہیں ہے لیکن وہ بھی اپنی تشریف آوری کے ساتھ ہی احتساب کا نعرہ لگاتے اور اس طرح اپنے آنے کے جواز کے طور پر اسے بھی پیش کرتے ہیں لیکن بالآخر ان کی یادداشت سے بھی احتساب کا یہ نعرہ اور وعدہ اتر جاتا ہے اور جس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ کرپٹ سیاستدان انہیں راس ہیں تاکہ وہ جب مناسب سمجھیں‘ اسی بہانے ان کا تختہ الٹ سکیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں کئی سول حکومتیں صرف اور صرف کرپشن کے الزام پر برطرف کی گئیں۔ اب حالت یہ ہے کہ عوام بھی اس کے عادی ہو گئے ہیں۔اور کرپشن کو کرپشن سمجھا ہی نہیں جاتا اور بیورو کریسی میں بھی اسے حق الخدمت ہی گردانا جاتا ہے۔ اصل وجہ نزاع مشرف کے خلاف مقدمہ اوراس کی جاری کارروائی بیان کیا جاتا ہے حالانکہ موصوف نہ صرف فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں جبکہ وہ اقبال جرم بھی کر چکے ہیں؛ تاہم ان کا موقف یہ ہے کہ آئین کی اس بے حرمتی میں ان کے ساتھ دوسرے بھی شامل تھے۔ اگرچہ فوج نے اس معاملے پر کبھی کھل کر اپنے اضطراب کا اظہار نہیں کیا بلکہ غالباً اصل وجہ پریشانی کچھ وزرائے کرم کے تندو تیز بیانات اور میڈیا والوں کے غیر ذمہ دارانہ تبصرے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اور ‘ستم بالائے ستم یہ بھی کہ حکومت نے اس ساری یلغار پر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔طالبان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے موضوع پر بھی فوج کے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن یہ کبھی بھی خطرناک نتائج کے حامل قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
اور ‘اگر اصل معاملہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ ہی ہو تو بعض اطلاعات کے مطابق حکومت خود کسی نہ کسی طرح اس مخمصے سے نکلنا چاہتی ہے‘ لیکن اگر حکومت اس کارروائی کو جاری بھی رکھتی ہے تو بھی اس بات کا ایک فیصد امکان بھی نہیں ہے کہ اسے بہانا بنا کر فوج حکومت کا تختہ الٹ دے گی کیونکہ ایک تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور دوسرے منتخب حکومت کو ہر پارٹی اور طبقے کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور فوج چلے ہوئے کارتوس کی خاطر یہ قدم کبھی اٹھانے پر تیار نہ ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوج کی طرف سے یہ اشارے جنرل (مشرف) صاحب کی لب خدمتی ہی کے سلسلے کی کڑی ہوں کیونکہ موصوف کہہ چکے ہیں کہ دیکھوں گا کہ جنرل راحیل شریف (ان کے لیے)کس حد تک جاتے ہیں۔ اور جہاں تک حکومت کے فکر مند ہونے کا تعلق ہے تو یہ اس کا اپنا احساس جرم ہے جس کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔
آج کا مطلع
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں 
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں