سرمایہ کاری میں چھوٹی موٹی رکاوٹیں
دور کریں گے...نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سرمایہ کاری میں چھوٹی موٹی رکاوٹیں دور کریں گے‘‘ البتہ بڑی بڑی رکاوٹیں سرمایہ کار خود دورکر لیں گے جیساکہ ہم اپنی سرمایہ کاری کی بڑی رکاوٹیں حکومت میں ہونے کی بدولت خود دور کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کے مسائل عارضی ہیں، جلد حل کر لیں گے‘‘ البتہ دہشت گردی کا مسئلہ مستقل ہے، اس لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ یہ بھی چلتا رہے گا، اول تو جنگ بندی میں توسیع نہ ہونے سے مذاکرات کا مسئلہ خود ہی حل ہو جائے گا اور مجبوراً آپریشن کے آپشن پر غور کرنا پڑے گا کیونکہ ہم خوشی سے یہ آپشن استعمال کرنا نہیں چاہتے جس سے طالبان حضرات خود بخوبی آگاہ ہیں اور ہم آہستہ آہستہ ان کے سارے مطالبات ماننے کو تیار تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ دریا دلی فلکِ کج رفتار کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور ظاہر ہے کہ آسمانی چیزوں کا مقابلہ ہم کہاں تک کر سکتے ہیں، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں‘‘ اگرچہ ہم نے اپنی سرمایہ کاری کا رُخ باہر کی طرف پھیر رکھا ہے۔ آپ اگلے روز بیجنگ میں ایک پاور کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
ملک سے اندھیرے دور کرنے کا
عزم کر رکھا ہے...شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم نے ملک سے اندھیرے دور کرنے کا عزم کر رکھا ہے‘‘ اسی لیے میں ہروقت جیب میں ٹارچ رکھتا ہوں کیونکہ یہ اندھیرے میں بہت کام آتی ہے اور میں عوام سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ٹارچ جیب میں رکھنا ہرگز نہ بھولیں جس سے اندھیرے کو مار بھگایا جا سکتا ہے اور اسی لیے ہم نے ملک میں ٹارچ سازی کی صنعت کو بھی فروغ دینے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو انہیں درآمد بھی کیا جائے گا جس سے کچھ ساتھیوں کو بھی خوشحال ہونے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''چین دوسری معاشی طاقت بن چکا ہے‘‘ جبکہ پہلی معاشی طاقت ہم ہوں گے کیونکہ ہم اسی طرح رفتہ رفتہ ساری ٹیکنالوجی اپنے ملک میں اکٹھی کر لیں گے جبکہ ہماری حالتِ زار دیکھ کر دوسرے ملک بھی ہماری بھرپور مالی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میٹرو بس میں خواتین کے لیے علیحدہ کیبن بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے‘‘ جس سے خواتین کے جملہ مسائل دیکھتے ہی دیکھتے حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ٹیکنالوجی سے استفادہ چاہتے ہیں‘‘ بلکہ ہم تو ہر چیز سے استفادہ چاہتے ہیں جس کے لیے ایک استفادہ وزارت الگ سے قائم کی جا رہی ہے اگرچہ جملہ وزارتیں پہلے ہی استفادہ وزارتوں کا کام کر رہی ہیں۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کے ساتھ چین کا دورہ کر رہے تھے۔
مشرف کی روانگی طے تھی‘ حکومت وعدے سے پھر گئی... مرزا اسلم بیگ
سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ''مشرف کی روانگی طے تھی‘ حکومت وعدے سے پھر گئی‘‘ اوپر سے مشرف نے یہ کھچ مار دی کہ ہسپتال چھوڑ کر اپنے فارم ہائوس میں آ دھمکے اور بغرضِ علاج باہر جانے کا معاملہ ہی ختم ہو گیا، اور ادھر والدہ صاحبہ ہسپتال سے گھر منتقل ہو گئیں اور یہ بہانہ بھی باقی نہ رہا، کم ازکم وہ مجھ سے مشورہ ہی کر لیتے، اسی طرح میں نے ضیا کے طیارہ حادثے کے بعد مارشل لا نہ لگا کر زندگی کی سب سے بڑی چگل ماری اور اُس حماقت پر آج تک ہاتھ مل رہا ہوں، ورنہ آج حکومت میرے کسی ایسے معاملے میں وعدہ کر کے پھر رہی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کی پکڑ آئین شکنی پر ہونی چاہیے نہ کہ غدار قرار دلوا کر فوج کو پریشان کیا جائے‘‘ کیونکہ آئین شکنی تو عام طور پر ہوتی ہی رہتی ہے جس سے آئین کی صحت پر کوئی خاص اثر کبھی نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا کہ '' کچھ نا اہل وزراء بیان بازی کے گولے برسا رہے ہیں‘‘ چنانچہ ان کی تلاشی لے کر مزید گولے بھی اُن سے برآمد کرنے چاہئیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں روزنامہ '' دنیا ‘‘کو انٹرویو دے رہے تھے۔
کافی...سندھ وادی کی شعوری تاریخ
یہ نہایت مفید اور معلوماتی کتاب تمغۂ امتیاز حفیظ خاں نے لکھی ہے اورملتان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ ملتان نے شائع کی ہے اور 350صفحات کو محیط اس صاف ستھری اشاعت کی قیمت 500روپے رکھی گئی ہے۔ ''زندگی‘ دھرتی اور کافی‘‘کے عنوان سے مصنف نے پیش لفظ خود لکھا ہے۔ حصہ اول میں کافی کا صنفی محاکمہ کیا گیا ہے جبکہ حصہ دوئم میں سندھی، سرائیکی، پنجابی اور کچھی زبان میں اب تک تخلیق کی گئی کافیوں کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اس بہانے مصنف نے ایک طرح سے کافی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی تاریخ بھی بیان کر دی ہے۔ حصہ سوم میں کافی کے تہذیبی ارتقا کی متوازی تاریخ کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور جا بجا ثقہ تصنیفات کے حوالے دیے گئے ہیں۔ آخر پر مصنف کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے بعض انعام یافتہ بھی ہیں۔ بہت عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ چھاپی گئی اس کتاب کا آپ کی لائبریری میں ہونا نہایت ضروری ہے۔
پُچّھاں دسّاں
ممتاز پنجابی ماہنامے کے ایڈیٹر اور متعدد کتابوں کے مصنف مقصود ثاقب کی طرف سے لیے گئے متعدد شخصیات سے انٹرویوز پر یہ دلچسپ کتاب سُچیت کتاب گھر لاہور نے چھاپی ہے۔ سلیس پنجابی زبان میں تحریر کی گئی، یہ یاد گار تصنیف کوئی 300صفحات کو محیط ہے اور اس کی قیمت 350روپے رکھی گئی ہے۔ یہ انٹرویوز زیادہ ترماہوار''ماں بولی‘‘ میں سب سے پہلے شائع ہوئے جو مصنف ہی کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے، جن مشاہیر کے تفصیلی انٹرویوز اس کتاب کو سجا رہے ہیں اُن میں صفدر ہاشمی، انور علی، کے کے عزیز، محمد آصف خاں، سید سبط الحسن ضیغم، شفقت تنویر مرزا، ڈاکٹر محمد باقر، سجاد حیدر، استاد عبدالغنی شوق، اجیت کور، اقبال سنگھ، رانو والیا اور ایس این سیوک شامل ہیں، جو ادب اور فائن آرٹس کی نامور ہستیاں ہیں اور کتاب کے مطالعہ سے ایسے لگتا ہے جیسے آپ ان زعماء سے پہلے ہی واقف تھے اور اب زیادہ قریب سے دیکھنے پر ان کے ذاتی اور فنی نقش ونگار مزید واضح ہو گئے ہیں۔ اس اہم کتاب کی اشاعت پر مصنف بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں!
آج کا مطلع
گزر گئی تھی مجھے کچل کر ظفر کوئی شے
وگرنہ میں تو کہیں کنارے پہ جا رہا تھا