مکھی کو آپ دودھ میں سے نکال سکتے ہیں اپنی زندگی سے نہیں‘میر ی بیوی کی طرح۔ آپ اسے پاس آنے سے کہاں تک روک سکتے ہیں۔ اسے ناک پر بیٹھنے کا زیادہ شوق ہے ، لیکن اکثر افراد کو اس کی یہ بے تکلفی زیادہ اچھی نہیں لگتی کیونکہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر اسے جسم کے دیگر حصوں پر براجمان ہونے کے خاصے مواقع دستیاب ہیں تو یہ ناک پر ہی بیٹھنا کیوں پسند کرتی ہے۔ البتہ جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ناک کٹوا بیٹھتے ہیں انہیں ایسی شکایت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ منقول ہے کہ اہل فلسفہ کی کانفرنس کے دوران ایک مکھی کسی صاحب کو بہت تنگ کررہی تھی۔ آخر وہ مکھی مار پکڑ کر اسے مارنے کے لیے اٹھے جو ٹیلی ویژن سیٹ پر جا بیٹھی تھی۔ وہ وہاں پہنچے تو مکھی اڑی اور جاکر کارنس پر بیٹھ گئی۔ وہ وہاں پہنچے تو وار کرنے لگے تو مکھی نے اڑان بھری اور کونے میں رکھی چھوٹی ٹیبل پر جا بیٹھی۔ وہاں پہنچ کر اسے مارنے ہی لگے تھے کہ ارادہ ترک کردیا اور واپس آکر بیٹھ گئے۔ ایک ساتھی نے پوچھا '' اسے مارا کیوں نہیں ‘‘ تو وہ بولے ، '' یہ وہ مکھی نہیں تھی!‘‘
مکھی کا ذکر اس لیے آیا کہ میں اس کی تلفی کا فریضہ آج کل تھوک کے حساب سے ادا کررہا ہوں۔ ان سردار صاحب کی طرح جنہوں نے نئے گھر میں نہانے کے تین تالاب بنوا رکھے تھے۔ ایک ٹھنڈے ، ایک گرم پانی کے لیے اور ایک خالی رکھنے کے لیے کہ کبھی نہانے کو جی نہیں بھی چاہتا۔ میرا جس دن کالم لکھنے کو جی نہیں چاہتا، کوئی ایسی ہی مصروفیت تلاش کرلیا کرتا ہوں۔ فارم ہائوس کی کھلی فضا مجھے ہی نہیں مکھیوں کو بھی بہت پسند ہے۔ صبح واک کرنے کے بعد چھائوں میں بیٹھتا ہوں تو یہ بھی میرے آس پاس منڈلانے لگتی ہیں، بس پھر میں ہوتا ہوں اور میرا مکھی مار، اور کشتوں کے پشتے لگنے لگتے ہیں۔
پہلے دن میں نے 22مکھیاں ماریں، دوسرے دن 16، اس کے بعد 10اور آج صرف 5جس کا مطلب ہے کہ یہ ان چاہی مخلوق معدومی کی طرف جارہی ہے لیکن یہ میری خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے ۔ اگر مقامی مکھیاں میرے ہاتھوں ختم بھی ہوجائیں تو آس پاس کے علاقوں سے آسکتی ہیں کیونکہ کوئی بھی خلا ہمیشہ خالی نہیں رہتا۔ مجھے یہ تسلیم ہے کہ اوچھا وار پڑنے سے بعض مکھیاں بچ نکلتی ہیں ، لیکن پھر آنے اور میرے ہاتھوں جہنم رسید ہونے کے لیے مکھی کو غالباً پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ اس پر وار کس طرف سے ہونا ہے، اس لیے وہ محفوظ سمت سے نکل جانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
یہ نہ سمجھیں کہ میں محاورے کے مطابق سارا دن مکھیاں مارتا رہتا ہوں ، نہ ہی مجھے مکھی پر مکھی مارنے کی سعادت کبھی نصیب ہوئی ہے، البتہ میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ مجھے یہاں بھیجے جانے یا میرے یہاں آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے اور یہ بات اللہ میاں بہتر جانتے ہیں کہ کس سے کیا کام لینا ہے۔ ویسے تو مکھیوں کی کئی قسمیں ہیں یعنی شہد کی مکھی کے علاوہ ایک بندوق کی مکھی بھی ہوتی ہے جس کی مدد سے آپ نشانہ باندھتے ہیں۔ البتہ شہد کی مکھیوں میں ایک رانی مکھی بھی ہوتی ہے۔ یقیناً کوئی راجہ مکھی یا مکھا بھی ہوتا ہوگا جیسے کہ راجہ گدھ ہوتا ہے، چنانچہ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کوئی رانی گدھ بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کی تصدیق کے لیے ہمیں بانو آپا سے رجوع کرنا پڑے گا۔کبھی یہ شعر کہا تھا کہ ؎
رہیں گے وہاں اب تو جا کر جہاں
ہوا صاف ہو اور پانی کھلا
سو اللہ میاں نے ان ہزاروں خواہشوںکی طرح کہ جس سے ہر خواش پہ دم نکلے‘یہ خواہش بھی پوری کر دی ہے اور صبح جب واک کے بعد دھوپ سے بچنے کے لیے سائے میں بیٹھتا ہوں تو ہوا بھی چل رہی ہوتی ہے جس کے دوش پر مکھیاں بھی بہتی چلی آتی ہیں۔''اگرچہ مکھیاں مارنا کوئی ایسا بہادری کا کام نہیں ہے لیکن ایک تو یہ ہر شریف آدمی کو تنگ کرتی ہے اور دوسرے کھانے پینے کی چیزوں کو آلودہ بھی۔ویسے ‘یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے ایک پر میں غلاظت ہوتی ہے تو دوسرے میں شفا۔چنانچہ اگر دودھ میں ترچھی ہو کر بھی گرے اور اس کا ایک ہی پر دودھ میں ڈوبے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شفا والا پر تھایا دوسرا‘ کیونکہ ابھی اس موضوع پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ۔
ایک طالب علم مکھی پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے مکھی کے پر توڑ دیئے اور اسے ایک کیف میں ڈال کر کہا‘''اڑ!‘‘وہ نہ اڑی تو دوسری دفعہ اسے یہی حکم دیا جب وہ تیسری بار کہنے کے باوجود نہ اڑی تو اس نے یہ نتیجہ لکھا کہ اگر مکھی کے پر توڑ دیے جائیں تو وہ قوت سماعت سے محروم ہو جاتی ہے!ہمارے دوست احمد ہمیش (مرحوم) کا سب سے زیادہ مشہور ہونے والا افسانہ''مکھی‘‘کے عنوان سے تھا‘ غالباً اس کے افسانوں کے مجموعے کا نام بھی یہی تھا۔
اگرچہ مکھی کا شکار ایک کار فضول ہی ہے لیکن وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ؎
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے ‘اے پسر
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
اس لیے مکھی کو مارنا‘جو خود بھی نہایت چالاک واقع ہوئی ہے‘بسیار چالاکی کا کام ہے۔پریکٹس کے زمانے میں میرے ایک منشی میاں الہ بخش ہوا کرتے تھے جو رشتے میں میرے عزیز بھی تھے‘وہ مکھی کو ایسی آسانی سے دبوچ کر کچل دیتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔غالباً انہیں مکھی کے روٹ کا پتہ ہوتا تھا کہ وہ جان بچانے کے لیے کسی طرف کو بھاگے گی۔مچھر تو کان کے پاس آ کر اپنی آمد کا باقاعد ہ اعلان کرتا ہے‘لیکن مکھی ایسا کوئی تکلف روا نہیں رکھتی اور چپکے سے کسی کھانے پینے کی چیز یا خود آپ کی ذات شریف کے کسی حصے پر آ بیٹھتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اکثر اوقات اپنے نزول کا مقصد حاصل کر چکی ہوتی ہے۔ اور‘ ہر وقت مکھی مار بھی آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔
تاہم یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ یہ بے آواز ہوتی ہے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق بھنبھناتی بھی ہے لیکن اپنا زیادہ تر کام یہ خاموشی ہی سے کرتی ہے۔میری ان کے ساتھ مڈبھیڑ بس ایک گھنٹے کے لیے ہوتی ہے‘ اس کے بعد میں کمرے میں آ جاتا ہوں اور اس کے بعد اس کی آزادی میں مخل نہیں ہوتا اور بچی کھچی مکھیاں اپنے کاروبار میں مشغول رہتی ہیں ۔شاید اس کی آخری قسم کتا مکھی ہے جو نسبتاً بڑے سائز کی ہوتی ہے اور کتے کے بالوں میں گھس کر اسے بیحد پریشان کرتی ہے‘خاص طور پر اس صورت میں جب وہ متاثرہ جگہ پر کھجلا بھی نہیں سکتا‘سو دیگر خاطر و مدارت کے علاوہ پالتو کتے کو اس مکھی کے شر سے بھی محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کا نام کچھ اور کیوں نہیں اور اسے مکھی کیوں کہا جاتا ہے!
آج کا مطلع
عمر باقی تھی ابھی اور گزاری بھی نہیں
دل سے مٹتی ہوئی تحریر ابھاری بھی نہیں