ایک بار کسی دور دراز گائوں سے ایک چھابڑی والے کا گزر ہوا جس نے اس میں امرود رکھے تھے۔گائوں والے بڑی حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر جا کر اپنی اس حیرانی کا اظہار اپنے بوجھ بجھکڑکے ساتھ بھی کیا۔چنانچہ اس نے امرودوں والے کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو جواب ملا کہ امرود ہیں۔بوجھ بجھکڑ نے یادداشت کے طور پر اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔کچھ عرصے بعد وہاں سے ایک شخص ہاتھی لے کر گزرا تو پھر وہی عمل دہرایا گیا اور بوجھ بجھکڑ نے اپنی ڈائری میں ہاتھی کا اندراج بھی کر لیا۔کافی عرصے کے بعد پھر ایک امرود فروش کا گزر ادھر سے ہوا تو گائوں والوں نے ایک امرود اس کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک بار پہلے بھی یہ چیز یہاں لائی گئی تھی اور ڈائری میں اس کا اندراج بھی کیا گیا تھا۔ذرا بتائیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ بوجھ بجھکڑ نے اپنی ڈائری کھولی اور دیکھ کر کہا‘''یہ ہاتھی ہے یا امرود!‘‘کیونکہ ہمارے عوام امرود بھی دیکھ چکے ہیں اور ہاتھی بھی۔لیکن اس بار انہیں اس سلسلے میں کسی بوجھ بجھکڑ کو پوچھنے ضرورت نہیں پڑے گی۔حتیٰ کہ حکومت کے لیے بھی یہ اجنبی نہیں ہوں گے کیونکہ وہ امرود بھی کھا چکی ہے اور متعدد بار ہاتھی کی سواری بھی کر چکی ہے۔چنانچہ موسم امرودوں کا بھی ہے اور اگر ہاتھی آ جائے تو اس کا راستہ بھی کوئی نہیں روک سکتا۔
حکومت اگر سمجھتی ہے کہ سب اس کے ساتھ ہیں اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے تو اسے اس خیال پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت جو سیاسی جماعت اقتدارسے باہر ہے، وہ ہر لحاظ سے حکومت مخالف ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے کیونکہ ہر جماعت اقتدار کے حصول کے لیے ہی اس جوکھم میں پڑتی ہے ۔چنانچہ ہاتھی کی آمد آمد ہوتی ہے تو استقبال کرنے والوں میں حُبّ علی نہ بھی ہو تو بغض معاویہ کی عملداری ضرور ہوتی ہے ۔اور یہ لوگ ظاہر کم اور چھپے ہوئے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے حکومت کی آنکھیں بند ہوتی ہیں۔
بظاہر منتخب ہونے کے باوجودحکومت پر الیکشن میں دھاندلی اور پنکچر فیم ہونے کا الزام ایسا ہے جو دھویا نہیں جا سکا۔اس کے علاوہ حکومت جس جمہوریت کو اپنے لیے سب سے بڑا ہتھیار یا ڈھال سمجھتی ہے ‘ اس کی ہیئت کذائی کے بارے میں بھی کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جمہوریت اپنی پیروڈی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے‘اور یہ کھیل عرصہ دراز سے بلا روک ٹوک یہاں کھیلا جا رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے ایک بار پھر یہ بیان بڑے زور و شور سے شائع ہوا ہے کہ جمہوریت میں احتساب کا ایک خودکار نظام موجود ہے۔ضرور موجود ہو گا لیکن اس پر عمل کس حد تک ہو رہا ہے؟حکومتوں کی میگا کرپشن اگر شروع سے ہی ایک سکۂ جاریہ چلا آ رہا ہے تو یہ احتساب کا نظام کہاں گھاس چرنے گیا ہوا ہے۔اگر یہ واقعی جمہوریت ہے تو سیاسی جماعتوں کے خود اندر جمہوریت کیوں ناپید ہے۔ان میں الیکشن کیوں نہیں ہوتے اور عہدوں کے لیے نامزدگی اور پرچی سسٹم کہاں کی جمہوریت ہے ‘پھر بلدیاتی الیکشن کا راستہ روکے رکھنا کیا ہے؟ پھر‘جمہوریت میں حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے جو عوام کو جواب دہ ہے اور ان کی رسائی میں ہوتا ہے۔کیا ہمارے وزیر اعظم تک پہنچنا عوام چھوڑ‘ کسی رکن اسمبلی بلکہ کابینہ کے ہر رکن کے لیے بھی ممکن ہے؟ کیا جمہوریت موروثی بھی ہوتی ہے؟ہمارے وزیر اعظم کس طرف سے وزیر اعظم ہیںاور بادشاہ نظر نہیں آتے؟کیا اس جمہوریت کے برتے پر یہ توقع کی جائے کہ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دی جا سکتی ہے؟یہ سراسر بادشاہت ہے اور بادشاہت کا خاتمہ پہلے کئی بار ہو چکا ہے۔
پیپلز پارٹی والے لاکھ اپنے تعاون کا یقین حکومت کو دلاتے رہیں‘اگر وقت آیا تو وہ آنکھیں ماتھے پر رکھنے میں ایک سکینڈ کی بھی دیر نہیں لگائیں گے۔ایم کیو ایم والے اس سے بھی آگے ہوں گے۔باقی رہ گیا میڈیا اور سول سوسائٹی کے دیگر حصے تو وہ بھی اس بات کو دیکھیں گے کہ خود حکومت نے کس حد تک معقولیت کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ زرا ندوزی کے حوالے سے ان دو بڑی پارٹیوں بلکہ خاندانوں کے ٹریک ریکارڈ سے کون واقف نہیں ہے۔تاہم اس گئی گزری جمہوریت کو لوگ اب بھی مارشل لاء سے بہتر اور غنیمت سمجھتے ہیں‘لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت غیر ضروری پنگے لینے سے باز رہے ‘ اور ‘اپنی اصل حیثیت کا اندازہ لگانے میں غلطی نہ کرے۔
اصل حقیقت تو یہ ہے کہ فوج سے لوگ محبت کرتے ہیں اور حکومت کو صرف برداشت کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ حکومت لوگوں کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرے، وہ اپنی جھوٹی انا کے خول سے باہر نکلنے پر ہی تیار نہ ہو تو یہ موجود ہمدردیاں بھی کھوتی چلی جائے گی۔جنرل کیانی نے اگر سول حکومت کو پانچ سال نکال جانے دیے تھے تو اس میں سول حکومت کی کارگزاری کے ضمن میں کسی مبالغہ آرائی کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
حق تو یہ ہے کہ بہت سا کام آپ خراب کر چکے ہیں‘اور جو تھوڑا بہت باقی رہ گیا ہے‘ اس میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کریں کیونکہ جنہیں آپ اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں ‘اپنے اپنے مفادات کے تحت وہ کسی وقت بھی گیئر بدل سکتے ہیں کیونکہ سیاست میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔عوام کی طاقت کو آپ لوگوں نے خود تحت الثریٰ تک پہنچا دیا ہے‘ اس لیے اس پر زیادہ بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘درمیانی راستہ ہی خیر کا راستہ ہوتا ہے!
آج کا مقطع
یاد کچھ آ کے پریشاں ہی تو رکھتی ہے‘ ظفرؔ
آتی جاتی رہے آخر مرا کیا لیتی ہے