"ZIC" (space) message & send to 7575

شمس الرحمن فاروقی کی ایک نظم

ایک صاحب نے جناب شمس الرحمن فاروقی کی ایک نظم اپنے کمنٹس کے ساتھ بھیجی ہے اور اس بارے مجھ سے بھی رائے مانگی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 
یہ نظم سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہے جس کے ساتھ جناب شمس الرحمن فاروقی کی تصویر بھی لگائی گئی ہے۔ غنی غیور جو کہ کشمیر یونیورسٹی جموں سے فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ پیرِ فرتوت کیا کہنا چاہتا ہے۔ اقتدار جاوید نے نظم کی معنویت پر شدید اعتراض کیا ہے اور کئی سوالات نشان زد کیے جس کے بعد یہ نظم سائٹ سے ہٹا دی گئی ہے۔ نظم یہ ہے: 
بیان صفائی (شمس الرحمن فاروقی) 
رات اُترتی گئی 
مجھ کو خبر ہی نہ تھی 
کاغذِ بے رنگ میں 
سرد ہوس جنگ میں 
صبح سے مصروف لوگ 
اپنی ہی چادر میں بند 
آنکھ کھٹکتی نہیں 
دل پہ برستی نہیں 
خشک ہنسی بے نمک 
تنگ گلی کی ہوا 
شام کو چُوہوں کی دوڑ 
تیز قدم گربۂ شاہِ جہاں 
کب جھپٹ لے گی اسے 
کیا پتہ 
نیند کا اونچا مکاں 
روشنیوں سے سجا 
ہم سب کی کھڑکیاں 
دروازے بند ہیں 
گھر کی چھتیں آہنی 
گھر کی حفاظت کرو 
گھر کی حفاظت کرو 
رات اُترتی رہے 
ہم کو دکھائی نہ دے 
ہم پہ یہ الزام کیوں؟ 
اس سلسلے کی پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ان غنی غیور صاحب کا لب و لہجہ انتہائی نامناسب ہے۔ ایک سینئر‘ اہم اور ممتاز ادیب کے بارے میں پیرِ فرتوت کا لقب استعمال کرنا اور اس کے حوالے سے صیغۂ واحد غائب کے استعمال سے خود معترض کے بارے میں اور ان کی نیت کے ضمن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ادبی رائے اس طرح نہیں دی جاتی بلکہ اس طرح ایک انتہائی واجب احترام شخصیت پر کسی تمیز داری کے بغیر رائے دینے سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی معترض کی اپنی نیت ڈھکی چھپی رہ جاتی ہے بلکہ یہ کسی طور قابلِ اعتماد بھی نہیں ٹھہرائی جا سکتی جو بہت افسوسناک صورتِ حال ہے۔ 
اس نظم پر جو میری رائے طلب کی گئی ہے تو غالباً اس لیے کہ مندرجہ بالا حضرات نے نظم پر جس مایوسی کا اظہار کیا ہے‘ رہی سہی کسر میں نکال دوں گا کیونکہ ایک طبقے نے میری بعض تحریروں کی وجہ سے مجھے فاروقی کے مخالفین کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے۔ اول تو ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں‘ اور اگر خدانخواستہ ہو بھی تو آپ کے اندر جو جج چھپا بیٹھا ہوتا ہے وہ آپ کو ڈنڈی نہیں مارنے دیتا کیونکہ جانبدارانہ اور تعصب زدہ رائے دینے سے آپ خود ایکسپوز ہو کر رہ جاتے ہیں اور جو لوگ میری تحریریں پڑھتے رہتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق میرٹ سے ہٹ کر کبھی بات نہیں کی۔ 
بہرحال پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نظم کے علاوہ بھی کسی ادبی تحریر پر رائے دینے کے لیے اپنے آپ کو مستند نہیں سمجھتا۔ اس نظم پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا گیا ہے کہ اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ یہ بات اگر مان بھی لی جائے کہ نظم کچھ اصحاب کی سمجھ میں نہیں آئی تو بھی‘ میں یہ بات کہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نظم یا غزل کا شعر سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ لطف اندوز ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ نظم لکھی نہیں جاتی‘ یہ تو بس ہوتی ہے اور چونکہ یہ الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے اس کے سمجھ میں نہ آنے سے زیادہ غیر معقول بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ویسے تشریح تو اس سمیت ہر نظم کی جا سکتی ہے لیکن کسی چیز کو کھول کر بیان کرنا بجائے خود ایک غیر تخلیقی عمل ہے۔ 
چنانچہ جہاں تک کسی چیز یا نظم کے سمجھ میں نہ آنے اور اس پر پریشان ہونے کا تعلق ہے تو کیا آپ کو اپنا آپ سمجھ میں آتا ہے؟ کیا یہ کائنات آپ کے پلے پڑتی ہے؟ پکا راگ اور تجریدی آرٹ کس حد تک آپ کی سمجھ میں آتا ہے اور کیا یہ چاند سورج زمین و آسمان سمجھے بوجھے بغیر آپ کو خوبصورت نہیں لگتے؟ کیا رات کو ستاروں بھرا آسمان بھلا نہیں لگتا حالانکہ ان میں کوئی ترتیب نہیں 
ہوتی؟ شاعری کو پوری طرح سمجھنا بجائے خود شاعری کے ساتھ زیادتی ہے۔ کچھ شاعری خود آپ کے اندر ہوتی ہے جسے باہر کی شاعری سے ملا کر آپ لطف اندوز ہوتے ہیں‘ لیکن اگر آپ کا اپنا خانہ ہی شاعری سے خالی ہو اور کوئی نظم آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو نظم کا کیا قصور ہے؟ میں تو کوشش کے باوجود اس نظم میں سے کوئی عیب نہیں نکال سکا۔ کچھ نظم گوئوں کو میں نے بطور خاص انڈر لائن کر رکھا ہے جن میں ابرار احمد‘ اختر عثمان‘ اقتدار جاوید اور فرخ یار شامل ہیں۔ مجھے یہ نظم کہیں بھی ان دوستوں کی نظموں سے کم تر نہیں لگی۔ کراچی کے نظم گو ان کے علاوہ ہیں۔ میں ابرار احمد کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ اگر اتنی خوبصورت نظم لکھتے ہیں تو انہیں غزل لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہی بات میں فاروقی کے حوالے سے بھی کہوں گا کہ انہیں اپنی نظم گوئی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ ایسی بہت سی نظمیں اور بھی لکھیں ع 
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد! 
تعزیتی نوٹ: سابق چیف سیکرٹری پنجاب جاوید احمد قریشی کے انتقال کی خبر افسوس کے ساتھ سنی گئی۔ وہ ایک خوشگوار اور عمدہ افسر ہونے کے علاوہ ایک صاحبِ دیوان شاعر بھی تھے۔ اُن کی کئی غزلیں الیکٹرانک میڈیا پر گائی گئیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ 
آج کا مطلع 
اگر اتنی بھی رعایت نہیں کی جا سکتی 
صاف کہہ دو کہ محبت نہیں کی جا سکتی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں