یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نظم ایک پراسرار چیز ہے۔نظم کا بہت جلد یا پوری طرح سمجھ میں آ جانا نظم کی خامی ہے کیونکہ یہ تو اپنے خالق پر بھی آہستہ آہستہ ہی کھلتی ہے۔اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شاعر کچھ لکھنا چاہتا ہے اور نظم کسی اور طرف کو نکل جاتی ہے‘اور شاعر خودہی اس کی باگیں کھلی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتی ہے ۔شاعر نظم لکھتے وقت جن کٹھن گھاٹیوں سے گزرا ہوتا ہے‘قاری اس کا اندازہ نہیں کر سکتا اور اسی سہولت سے نظم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں نظم کو کوئی لاینحل معمہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانے کی سعی کر رہا ہوں کہ اسے سمجھنے یا اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی پہلی قرأت کا مزہ لینا ہی ابتدائی طور پر کافی ہوتا ہے۔نظم تو ایک جوان لڑکی کی طرح ہوتی ہے جو اگر زیادہ خوبصورت نہ بھی ہو تو بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور یہی کیا کم ہے کہ وہ آپ کی دسترس میں ہو جبکہ اس کے چہرے کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور دلکشی کا حامل ہو گا۔عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نظم پڑھنے کے لیے جس شوق کی ضرورت ہے وہ تو ہونا ہی چاہیے ،ورنہ نظم اپنا آپ کھولنے سے گریز کرتی ہے،حتیٰ کہ وہ خود شاعر پر بھی پوری طرح سے نہیں کھلتی اور ایک حد تک پیچیدہ ہونا اس کے لیے لازم بھی ہے۔بعض اوقات کسی قدر
پیچیدگی اس میں شاعر خود بھی ڈال دیتا ہے ،ورنہ وہ ایک عام سی چیز ہو کر رہ جاتی ہے ۔ایسی نظم کو عام قاری دستیاب نہیں ہوتا اور یہ عام قاری کے لیے ہوتی بھی نہیں۔آپ پہلے نظم پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اسے پڑھتے ہیں اور اس کا حق بھی آپ کو تبھی پہنچتا ہے ۔چنانچہ جب تک آپ کے اندر نظم کے لیے ایک والہانہ پن نہیں ہوتا ،تب تک یہ آپ سے دور ہی رہتی ہے اور نظم کے قریب جانے یا اس تک رسائی حاصل کرنے کی تگ و دو بھی وہی قاری کرتا ہے جس کا اپنا آپ بھی نظم سے معمور ہوتا ہے کیونکہ جب تک نظم کے جراثیم خود آپ کے اندر موجود نہ ہوں نظم کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ ہم آغوش ہونا نظم کا اپنا تقاضا بھی ہے۔
نظم ایک ایسا تحفہ ہے جس کا استقبال کرنے کے لیے ہمیشہ تیاررہنا چاہیے کیونکہ یہ کچھ دیر کے لیے آپ کو اپنی ذات سے اتنا ہی علیحدہ کر دیتی ہے جتنی کہ آپ کو ضرورت ہے ۔نظم کو بیگار جان کر نہیں پڑھا جا سکتا کہ اس کے لیے ایک طرح کا شوق فراواں آپ کے اندر پہلے سے موجود ہونا چاہیے ۔نظم گو ایک مجسم حسن تخلیق کر کے آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔آپ ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر اسے نظر انداز بھی کرسکتے ہیں لیکن حسن کا وہ مجسمہ بہرحال موجود رہتا ہے اور آپ کسی اور لمحے میں اسی کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں‘زود یا بدیر۔
سطحی یا روٹین کی نظم البتہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،اسے آپ دیکھتے ہی ‘یا پہلی قرأت میں ہی مسترد کر دیتے ہیں اور ایک کپی ٹینٹ قاری اسے درخور اعتناء سمجھتا ہی نہیں جس کا ذوق سخن پختہ ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ نظم تو آپ کی سہیلی بن جاتی ہے جس سے ہر طرح کا راز و نیاز کیا جا سکتا ہے۔شاعری کی طرف جھکائو ہر کسی کا علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے ،اس لیے نظم کم ذوق قاری کے کام کی چیز ہی نہیں ہوتی کیونکہ جینوئن قاری کے نظم سے تقاضے ہی مختلف ہوتے ہیں جبکہ نظم کا اپنا تقاضا بھی ہر قاری کے ساتھ ایک سا نہیں ہوتا۔
نظم کے حوالے سے ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ نہ یہ زور لگا کر اور پوری محنت سے لکھی جاتی ہے اور نہ ہی اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے زیادہ سردردی سے کام لینا پڑتا ہے کیونکہ یہ جتنی بھی سمجھ میں آ جائے‘اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ہاں ‘اگر اس میں آپ کی دل چسپی بڑھنے لگے تو آپ اس پر مزید غور بھی کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ شاعر کی سات پشتوں پر احسان کر کے اس کی نظم پڑھتے ہیں۔نظم کے تو اندر سے گزرنا ہوتا ہے ‘باقی سارا کام وہ خود کر دیتی ہے ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ روٹین کی غزلوں کے ساتھ کلیشے قسم کی نظمیں ٹنوں کے حساب سے تخلیق بھی کی جا رہی ہیں اور ادبی رسالے ان سے بھرے ہوئے بھی ہوتے ہیں لیکن جینوئن نظم تو آنکھ مار کر اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔
اس میں خود شاعر کا نام بھی آپ کی مدد کرتا ہے کیونکہ آپ اگر شاعری سے مَس رکھتے ہیں تو آپ کو اچھی طرح سے پتہ ہوتا ہے کہ فلاں شاعر کی نظم کو آپ نے مس نہیں کرنا۔اگرچہ بعض اوقات وہ بھی آپ کو مایوس کر سکتا ہے کیونکہ ہرعمدہ شاعر بھی ہمیشہ ہی اچھی چیز آپ کے لیے تخلیق نہیں کر سکتا۔البتہ اس کی نظم روٹین کی ان نظموں سے لازمی طور پر مختلف اور بہتر ہو گی جن کے انبار ہمارے چاروں طرف لگے رہتے ہیں۔کچھ لوگ نظم کی طرف اس لیے بھی راغب ہوتے ہیں کہ وہ غزل کی پابندیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔حالانکہ نظم کی جو اپنی اندرونی پابندیاں‘نزاکتیں اور نفاستیں ہیں وہ غزل کی پابندیوں سے کسی طور بھی کم یا آسان نہیں ہوتیں۔
نظم کے موضوع پر میں جتنی خامہ فرسائی کر گیا ہوں‘ ایک خالص غزل گو ہوتے ہوئے یقینا میں اس کی اہلیت نہیں رکھتا کیونکہ غزل گو سوچتا ہی اور طریقے سے ہے جو نظم گو شاعر سے قطعاً مختلف ہوتا ہے ۔اس سے میرا ایک مقصد یہ بھی تھا‘ اور ‘یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ شاعروں کو تنقید خود لکھنی چاہیے کیونکہ ایک پیشہ ور نقاد کی نسبت وہ شاعری کو قدرتی طور پر زیادہ اور بہتر سمجھتے ہیں۔نظم گوئوں کو غزل اور غزل گوئوں کو نظم کی تنقید اس لیے بھی لکھنی چاہیے کہ ایک طرح کی دوری جو وہ ایک دوسرے سے روا رکھتے ہیں اور جو بعض اوقات ایک غیر ضروری اور بلا جواز تعصب کا رنگ بھی اختیار کر لیتی ہے‘اس سے چھٹکارا مل سکے بلکہ دونوں اصناف کو ایک دوسری کے قریب آنے کا موقع بھی فراہم ہو سکے۔
آج کا مطلع
دل کے اندر جی سکتی ہے مر سکتی ہے
خواہش خودمختار ہے‘ کچھ بھی کر سکتی ہے