کچھ لوگ حکومت اور طالبان میں
جنگ بندی پر خوش نہیں...نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ '' کچھ لوگ حکومت اور طالبان میں جنگ بندی پر خوش نہیں‘‘ حالانکہ یہ حکومت کا صرف اپنا ہی کارنامہ ہے اور طالبان معززین نے تو جنگ بندی میں توسیع کی ہی نہیں، اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ وہ بھی یہ کام کرڈالیں کیونکہ ہم نے آخر فوج کو بھی جواب دینا ہے جو پہلے ہی ہم سے کچھ اتنی زیادہ خوش نہیں ہے حالانکہ اب تو میں اور میرے وزراء نے فوج کے حق میں بیان بھی دینا شروع کردیے ہیں ،اگرچہ یہ کام باری باری ہی کیا جاتا ہے یعنی کبھی میڈیا کے حق میں اور کبھی فوج کے۔ انہوں نے کہا کہ '' ان لوگوں کا کھوج لگائیں گے‘‘ کیونکہ طالبان سے فراغت کے بعد اب میرے پاس وقت ہی وقت ہے اور جونہی بیرونی دوروں سے کچھ فرصت ملتی ہے سب سے پہلے اسی طرف توجہ دوں گا بلکہ شہباز صاحب سے یہ کہا ہے کہ بیرونی دورے میری بجائے آپ ہی کر آیا کریں کیونکہ ساتھ تو آپ نے لازمی طور پر جانا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' توانائی بحران کا صحیح اندازہ ہوتا تو منشور میں وعدہ نہ کرتے ‘‘ جبکہ کسی اور مسئلے کا بھی صحیح اندازہ نہیں تھا کیونکہ ہمیں کوئی غیب کا علم تھوڑا ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز لندن میں انٹرویو دے رہے تھے۔
عوام کی خدمت کا مشن یکسو ہوکر
آگے بڑھا رہے ہیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا کہ '' عوام کی خدمت کا مشن یکسو ہوکر آگے بڑھا رہے ہیں ‘‘ کیونکہ مشکل وقت میں عزیز واقارب ہی کام آتے ہیں جن میں سے کچھ کابینہ میں ہیں اور کچھ قریبی حضرات نے بیورو کریسی کا محاذ سنبھال رکھا ہے اور ہمارا کام ایک خاندان کی صورت میں اپنے آپ ہی ہوتا چلا جارہا ہے بلکہ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اگلی نسل کو بھی تیار کیاجارہا ہے۔ عزیزی حمزہ شہباز اور مریم نوازکی مثالیں سب کے سامنے ہیں جنہیں اپنی اپنی جگہ ولی عہد کا باقاعدہ درجہ حاصل ہے کیونکہ جمہوریت کا ایک حسن موروثی سیاست بھی ہے۔ ماشاء اللہ ! انہوں نے کہا کہ '' حکومتی پالیسیوں سے سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوا‘‘ اور اسی طرح انشاء اللہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہوجائے گا حالانکہ اگر وہ پوری طرح سپورٹ کرتے تو پنکچر وغیرہ نہ لگوانے پڑتے جن کا آج تک شور مچا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' دورہ برطانیہ سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی‘‘ اور خاکسار ہر بار ترقی کی راہیں کھولنے کے لیے ہی ساتھ آتا ہے۔ اگرچہ ہم خود تو اپنے لیے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ترقی کی راہیں کھول چکے ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
میڈیا دانشمند اور جمہوری معاشرے
کا عکاس ہے...پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ '' میڈیا دانشمنداور جمہوری معاشرے کا عکاس ہے‘‘ کیونکہ کل فوج کے حق میں بیان دیا تھا ،اس لیے آج میڈیا کی باری تھی جبکہ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے چنانچہ میرا اگلا بیان انشاء اللہ پھر فوج کے حق میں ہوگا جبکہ یہ ضروری ہے کہ ہماری مجبوریوں کو بھی سمجھا جائے اور ظاہر ہے کہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہی چلنا پڑتا ہے جو ہر روز اپنا رخ تبدیل کرتی رہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر شخص قانون کے دائرے میں رہ کر ملکی مسائل کے حل کا خواہاں ہے‘‘ اور جو طبقہ اپنی موٹی عقل کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھانا، اسے بھی اشاروں اشاروں میں سمجھنا پڑتا ہے جبکہ میڈیا تو پہلے ہی کافی عقلمند واقع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' توانائی بحران کے خاتمہ اور دہشت گردی کے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘‘ جبکہ اپنے وقار کا تحفظ وغیرہ بالکل ثانوی چیزیں ہیں اور یہ خود بخود ہی ہوتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا اداروں کے ساتھ مشاورت کررہے تھے۔
جمہوریت ڈی ریل ہونے دیں گے نہ کسی کو شب خون مارنے دیں گے...گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ '' جمہوریت ڈی ریل ہونے دیں گے ،نہ کسی کو شب خون مارنے دیں گے ‘‘ کیونکہ اب سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ہی سب سے زیادہ منافع بخش پیشہ ہے اور خوف خدا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ٹھوٹھے پر ڈانگ مارنے اور ہمیں بے روزگار کرنے سے گریز کرنا چاہیے، اگرچہ شب خون مارنے والوں نے ہم سے پوچھ کر یہ کام نہیں کرنا، تاہم آخر رحم دلی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور وہ لوگ اپنی عاقبت کے لیے اچھا نہیں کرتے جو کسی کو کھاتا نہیں دیکھ سکتے۔ حالانکہ کھانے کی ہر کسی کو آزادی حاصل ہے جبکہ یہ ملک انشاء اللہ ایک بڑے دسترخوان کی حیثیت رکھتا ہے جو ہر کسی کی دسترس میں ہے ،اگرچہ بعض قسمت کے دھنی دستر خوان تک زحمت کرنے کی بجائے دیگوں میں ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' موجودہ حکومت عوامی مقبولیت کھوچکی ہے‘‘ تاہم ہم اسے اپنی مقبولیت میں سے کچھ حصہ دینے کے لیے تیار ہیں بلکہ اکثر حضرات سے تو یہ مقبولیت سنبھالی ہی نہیں جارہی۔ آپ اگلے روز ملتان میں وکلا سے بات چیت کررہے تھے۔
پی ٹی آئی شکایات کے ازالے کے لیے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرے ...وٹو
پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی شکایات کے ازالے کے لیے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرے‘‘ جبکہ ہمیں تو اپنے دور میں کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوتی تھی اور ہر کوئی دونوں ہاتھوں سے قوم کی خدمت میں علی الاعلان لگا ہوا تھا تاکہ دیکھنے والے کچھ عبرت بھی حاصل کریں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک عزیز سے عبرت حاصل کرنے کا رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ آخر اس ملک کا کیا بنے گا ؟ انہوں نے کہا کہ '' احتجاجی سیاست ملک کو نقصان پہنچا سکتی ہے ‘‘ جبکہ اس نیک کام کے اور بھی کئی طریقے ہیں مثلاً اس کی دولت ہی کھینچ کھانچ کر ملک سے باہر لے جائی جائے تاکہ بیرونی مالیاتی ادارے اس کو قرضے وغیرہ دے کر اسے صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ '' ملک میں جمہوریت کا پودا ابھی اتنا مستحکم نہیں ہوا کہ احتجاجی سیاست کا متحمل ہوسکے‘‘ البتہ جملہ سیاستدان باری باری اقتدار میں آکر اس قدر مستحکم ہوچکے ہیں کہ ان کی مثال دی جاسکتی ہے حتیٰ کہ جمہوریت کا پودا کم از کم ان کی حد تک حیرت انگیز طورپر مستحکم ہوچکا ہے۔ آپ اگلے روز حسب معمول لاہور سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
آج کا مقطع
جو رابطہ نہیں رکھتا کسی طرح کا‘ ظفرؔ
وہ درمیان میں دیوار بھی نہیں کرتا