سرفراز زاہد کا مجموعۂ کلام ''لفظوں سے پہلے ‘‘موصول ہوا تو اس کے پسِ سرورق پر میری رائے درج تھی۔ مجھے تو یاد ہی نہیں تھا کہ اس پر میں نے بھی کوئی رائے دے رکھی ہے ؛پھر سوچا کہ یہ اس نوجوان کے اپنے زورِ قلم کا ہی نتیجہ نہ ہو لیکن پڑھنے پر تحریر کچھ مانوس سی لگی۔ سو‘ پہلے وہ تحریر:
''سرفراز زاہد غزل کے بہت سے رازوں سے مزیّن اور آراستہ ہو کر اس دشوار گزار راستے پر نکلا ہے‘ اور اس راستے کو ہموار بھی اس نے خود کیا ہے۔ اس کی زیادہ تر غزلیں مختصر بحروں میں ہیں لیکن اس نے چھوٹی بحروں میں بڑی شاعری تخلیق کر کے دکھا دی ہے۔ شعر کہنا اور اس میں تاثیر‘ تازگی اور لطفِ سخن بھر دینا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ جس اعتماد اور رسان سے یہ شعر کہتا ہے وہ ہماوشماکے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ اس کے اندر حیران کر دینے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ یہ مسودہ پڑھ کر مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ جدید غزل کے بارے میں مایوس یا فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
اختر رضا سلیمی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ یہ مضمون کا شاعر ہے اور اب اس کی مضمون طرازیاں:
محبت عام سا اک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے
اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی‘ ورنہ
کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم
کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں
اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم
وہ ایک خواب میں میرے قریب آئے اگر
میں سارے شہر کی نیندیں خرید سکتا ہوں
بھول جاتا ہے اب دعائوں میں
پہلے جس کے لیے نماز تھا میں
کھِلا کرتے تھے خوابوں میں کسی کے
ترے تکیے پہ مرجھانے سے پہلے
ایک رم جھم سی کیفیت کے بعد
موسلا دھار ہو رہا ہوں میں
رفتہ رفتہ جگہ بناتی ہے
ایک میں دوسرے کی مجبوری
آپ اگر پلکوں کی چوکھٹ تک آ جائیں
ہم اپنی تصویر سے باہر آ سکتے ہیں
پلکوں کی درزوں سے جھانکنے والے اک دن
رخساروں پر آ کر شور مچا سکتے ہیں
ایک ذرے کے دل میں اُترے
کہکشائوں کے راستے ہم
اب تو نظریں بھی چُرا لیتا ہے
جو مجھے خواب دکھاتا تھا کبھی
مدت سے اک اندھا مجھ میں
ڈھونڈ رہا ہے رستہ مجھ میں
روشنی ان دنوں کی بات ہے جب
دے رہا تھا کوئی دکھائی ہمیں
جو شہ رگ سے بھی بڑھ کر نزدیک ہے
میں پہنچا نہیں اُس خدا تک ابھی
نہ ہم ترے قریب آنا چاہتے
نہ زندگی اداس ہونا جانتی
جینوئن شاعر پہلے اپنے لیے ایک نظام وضع کرتا ہے کہ اسے دوسروں سے مختلف اور نمایاں کس طرح ہونا ہے جبکہ اس سے پہلے پوری تسلی سے اس بات کی تہہ تک بھی پہنچ چکا ہوتا ہے کہ جدید شاعری یعنی جدید غزل کہاں تک پہنچ چکی ہے تاکہ وہ اسی نقطے سے آغاز کرے اور اپنی ایک الگ پہچان بنانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اسی نظام کے تحت وہ پرانے مضمون کو نیا کرتا یا اسے ایک ایسا رخ دے دیتا ہے کہ وہ نیا لگے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ شعر اور ناشعر میں تمیز بھی کر سکے ،ورنہ اس کی ساری محنت بیکار جائے گی اور وہ اسی بھیڑ کا ایک حصہ بن جائے گا جس کے خلاف وہ یہ سارا کچھ کر رہا ہوتا ہے۔
اور یہ سارا کچھ ہنڈیا پکانے یا اُسے خراب کرنے کے مترادف ہے کہ اگر اس میں ذائقہ ہی نہیں ہوگا تو وہ کسی کام کی بھی نہیں رہتی۔ نہ ہی ایک خراب باورچی کو کوئی مزید موقع دیا جا سکتا ہے بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ اس کے اندر شعر کاسانچا ہی اور ہوتا ہے اور شعر اس سانچے سے نکل ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کے سارے تقاضے پورے نہ کر چکا ہو کیونکہ شاعر ایک خوبصورتی تخلیق کر رہا ہوتا ہے اور شعر میں خوبصورتی تبھی لائی جا سکتی ہے کہ یہ دوسروں سے ذرا ہٹ کر ہو اور اس مجسمہ سازی پر اسے پورا پورا عبور حاصل ہو‘ چسکا ہو اور اسی میں زبان و بیان کی ساری باریکیاں‘ نفاستیں اور نزاکتیں بھی شامل ہیں۔
سرفراز زاہد کی شعری کائنات کئی اور ہم عصروں سے‘ یعنی کامیاب ہم عصروں سے زیادہ مختلف نہ ہونے کے باوجود اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے ،ورنہ غزل کی عمومی صورت حال تو خاصی مایوس کن ہے‘ حتیٰ کہ عمدہ غزل گوئوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور گاہے بہ گاہے جن کا تذکرہ میں کرتا بھی رہتا ہوں۔ دوسرے کئی اہم شہروں کی طرح میں اسلام آباد کو بھی غزل سے خالی ہی سمجھ رہا تھا لیکن اس شاعر نے مجھے باقاعدہ حیران کردیا ہے کہ جس طرح یہ شعر بناتا ہے‘ اور شعر کا بننا ہی اصل بات ہوتی ہے‘ وہ بجائے خود ایک مسرور کن حیثیت رکھتا ہے۔ اس قدر بوسیدہ صنفِ سخن میں ایسے ایسے اشعار نکالنا ہماوشماکے بس کی بات ہی نہیں ہے کیونکہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ شعر شروع کہاں سے ہوتا ہے اور اسے ختم کہاں پر کرنا چاہیے!
یہ شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آپ واقعی شاعری پڑھ رہے ہیں اور کوئی مشقت نہیں اٹھا رہے اور یہی وہ شاعری ہے جو آپ کے زیر مطالعہ آنی چاہیے۔ سب سے زیادہ دل خوش کن بات یہ ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران ہی کئی نئے غزل گو دریافت ہوئے ہیں جن کا میں نوٹس لیتا رہتا ہوں کیونکہ میں تو ایک طرح سے جال لگا کر بیٹھا ہوتا ہوں کہ شعر کی کوئی تگڑی سی مچھلی پھنسے اور میں اس کے ذائقے سے دوسروں کو بھی آشنا کروں کیونکہ عمدہ شعر ہی وہ صدقۂ جاریہ ہے جس کی بدولت آپ اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ اس طرح شعر سب کی ملکیت میں آ جاتا ہے کہ ویسے بھی عمدہ شاعری 'ون مین شو‘ نہیں ہوا کرتی اور اس کی تخلیق میں ہم سب شامل ہوتے ہیں۔ سرفراز زاہد نے جو کمال کر دکھایا ہے‘ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس کی محبوبہ کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جس کی بدولت یہ لازوال اشعار وجود میں آئے ہیں ؎
نہ ہم ترے قریب آنا چاہتے
نہ زندگی اداس ہونا جانتی
آج کا مطلع
ہم اپنے پاس بیٹھیں یا تمہارے ساتھ جائیں
یہ وہ دریا نہیں جس کے کنارے ساتھ جائیں