پیارے باورچیو!
ہم کافی عرصے سے ایک طرح کے احساس جُرم میں مُبتلا تھے کہ آپ کا صفحہ جاری نہ کیا جا سکا، حالانکہ جس کا کھائیں‘گن بھی اسی کے گانے چاہئیں۔ آپ کے طفیل دو وقت کا کھانا نصیب ہو جاتا ہے۔جہاں تک ہمارے باورچی کا تعلق ہے تو وہ اپنے مسائل ہمیں زبانی بھی بتا سکتا ہے‘بتا سکتا کیا ہے بلکہ بتا بتا کر ہمہ وقت ہمارے کان کھاتا رہتا ہے، چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کانوں کا صرف نشان ہی باقی رہ گیا ہے۔ تاہم‘جب سے سنا ہے کہ آپ لوگوں نے اکٹھے ہو کر ‘باقاعدہ ایک یونین بنا لی ہے بلکہ ہمارے خلاف کوئی احتجاجی مہم بھی شروع کرنے والے ہیں اور کوئی دھرنے وغیرہ کا پروگرام بھی ہے تو ہم نے اس عوامی مطالبے پر یہ صفحہ جاری کرنا شروع کیا ہے، حالانکہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ دھرنوں کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ بیکار ہی چلے جاتے ہیں ، عمران خان کی روشن مثال سب کے سامنے ہے اور ملک میں چونکہ مثالی جمہوریت قائم ہے‘ اس لیے آپ لوگوں کا یہ مطالبہ پورا کیا جا رہا ہے۔چنانچہ آپ کی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا۔
نمونے کا اشتہار برائے ملازمت
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا درخواست ہے کہ میں ایک نہایت کامیاب اور تجربہ کار باورچی ہوں ‘ اور ‘مناسب تنخواہ پر خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار ہوں۔جو خاص ڈشیں میں تیار کر سکتا ہوں حسب ذیل ہیں۔
1۔خیالی پلائو۔ واضح رہے کہ میرے جیسا لذیذ خیالی پلائو اور کوئی نہیں پکا سکتا جبکہ اس پر خرچ بھی کچھ نہیں آتااور مہنگائی کے اس زمانے میں میرے جیسے باورچی کا دستیاب ہونا ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔آرڈر پر نہایت قلیل وقت میں تیار کر سکتا ہوں۔
2۔باسی کڑھی میں اُبال کا کرشمہ:کڑھی جتنی بھی باسی ہو‘گرم کیے بغیر اس میں اُبال لانا میرے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ اس لیے اس کڑھی کو پھینکنے کی بجائے سنبھال کر رکھنا چاہیے۔
3۔دال گلانا: جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے کسی کی بھی دال نہیں گلتی‘ جن میں سیاست دان حضرات بطور خاص شامل ہیں اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میری دال وقت پر گل جاتی ہے۔
4۔ مسور کی دال:مسور کی دال میری مخصوص ڈش ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھانے والے کا منہ بھی اس قابل ہو کہ اسے کھلائی جا سکے‘یہ نہ ہو کہ بعدمیں کہنا پڑے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔
5۔ٹیڑھی کھیر:خاکسار کو ٹیڑھی کھیر پکانے کا پرانا تجربہ حاصل ہے، البتہ اسے کھانے کے لیے خود بھی ٹیڑھا ہونا پڑتا ہے کیونکہ یہ سیدھی کسی صورت نہیں ہو سکتی۔کئی لوگ کوشش کر کے منہ کی کھا چکے ہیں۔
6۔ایک ٹانگ والا مرغا: پکانے سے پہلے تو اس کی دو ٹانگیں ہی ہوتی ہیں لیکن یہ ڈش جب تیار ہوتی ہے تو اس میں سے ایک ہی ٹانگ دستیاب ہوتی ہے جبکہ میرا جواب ہر بار یہی ہوتا ہے کہ پکاتے پکاتے ایک رہ گئی ہے۔کیونکہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں اسے محاورے کے مطابق ہی پکاتا ہوں۔
المشتہر:شادا باورچی‘چوبرجی ‘لاہور
پسندیدہ اشعار
کھیر پکائی جتن سے‘ چرخہ دیا جلا
آیا کتا‘ کھا گیا‘ تو بیٹھی ڈھول بجا
ایک لڑکی بگھارتی تھی دال
دال کہتی تھی اس سے یہ احوال
نمک سالن میں اتنا تیز‘ توبہ
مزعفر ڈالڈا آمیز‘ توبہ
پوچھا تو ناچار ظفر نے
اپنی ذات بتائی روٹی
مشہور محاورے اور ہدایات
٭گوشت جلا ہوا بھی ہو تو دال سے پھر بھی بہتر ہوتا ہے
٭لمبے شورے کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
٭نیم چڑھے کریلے کو نیم سے اتار کر پکانا چاہیے
باورچیوں کے سبق آموز واقعات
نوکرانی ملازمت چھوڑ کر جانے لگی تو بیگم صاحبہ نے کہا ''تم نوکری چھوڑ کر جا رہی ہو لیکن صاحب کو تو تمہارے ہاتھ کا پکا کھانا بہت پسند تھا۔اب ان کا کیا ہو گا؟
''آپ ان کی فکر نہ کریں‘‘نوکرانی نے جواب دیا''وہ بھی میرے ساتھ ہی جا رہے ہیں!‘‘
٭صاحب دفتر سے گھر آئے تو بیگم بولیں‘''پرسوں جو نئی باورچن رکھی تھی‘ میں نے اسے نکال دیا ہے!‘‘
''لیکن ‘بیگم‘ کیا اسے موقع دیے بغیر ہی؟‘‘صاحب نے پوچھا۔''جی نہیں‘‘ بیگم نے جواب دیا‘''آپ کو موقع دیے بغیر!‘‘
٭ایک بیگم اپنی سہیلی کو بتا رہی تھیں۔''ہماری باورچنی تو ہمیں بہت سستی پڑتی ہے‘تنخواہ بھی اسے ہم اپنی مرضی سے دیتے ہیں اور اس کے کھانے کا بھی کوئی خرچہ نہیں ہے‘‘
''تو کیا وہ بھوکی رہتی ہے؟‘‘سہیلی نے پوچھا‘''نہیں‘وہ جتنے کھانے بناتی ہے ‘انہیں چکھتے چکھتے ہی سیر ہو جاتی ہے‘‘بیگم بولیں ۔
سردارجی کا باورچی
ایک سکھ نے نیا باورچی رکھا تو اس نے پوچھا‘''میرے لیے کیا حکم ہے‘ آپ کیا کیا شوق سے کھاتے ہیں جو میں پکا کر دیا کروں‘‘
''تم نے اور کچھ نہیں کرنا‘‘سردار جی بولے‘''وہ سڑک کے پار گوردوارہ ہے وہاں سے پرشاد خود کھا آیا کرو‘اور میرے لیے لے آیا کرو!‘‘
آج کا مقطع
یہی وہ خطہ خوابِ تماشا ہے‘ ظفر‘ جس کو
کبھی صحرائے رکھتے ہیں‘ کبھی دریائے رکھتے ہیں
نوٹ: میرے کل کے کالم کا درست عنوان یہ تھا ''زاہدہ حنا کا افسانہ اور مزید مصطفیٰ ارباب‘‘۔