"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی ‘متن ہمارے

عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان کوئی تنائو نہیں...فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ '' عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان کوئی تنائو نہیں‘‘ بلکہ جو بھی تنائو ہے صرف حکومت اور خاکسار کے درمیان ہے جس کی وجہ حکومت کو بھی خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کیونکہ میں اس بارے حکومت کو اکثر اوقات یاد بھی دلاتا رہتا ہوں لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا جبکہ اس کے پاس روپے پیسے سمیت کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہے اور ا گرچہ مجھے روپے پیسے کا کوئی خاص لالچ نہیں ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہے، آخر حکومت رات دن نوٹ چھاپ چھاپ کر کہاں لے جارہی ہے، حتیٰ کہ نوٹ چھاپنے والی سٹیٹ بینک کی مشینیں بھی اب جواب دینے لگی ہیں اور خطرہ ہے کہ چینی ریلوے انجنوں کی طرح ایک دن بالکل ہی بیٹھ جائیں گی، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ایسا برا وقت آنے سے پہلے کم از کم مجھ سے ہی سرخرو ہوجائے۔ آپ اگلے روز حب میں ایک دستار بندی کے موقع پر میڈیا سے خطاب کررہے تھے۔
نوازشریف اگر بھارت ساتھ لے جانا چاہیں تو ضرور جائوں گا...خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ '' اگر نوازشریف بھارت ساتھ لے جانا چاہیں تو ضرور جائوں گا‘‘ اور موصوف کو کم از کم اخلاقاً ہی مجھے صلح مار لینی چاہیے جو شروع سے ہی ان کے دورۂ بھارت کی تائید کرتا چلا آرہا ہوں ، اگرچہ میرا مقصد وہاں کترینہ کیف وغیرہ سے ملنا نہیں ہے تاہم کم از کم اس ملک کی تو زیارت کرلوں گا جہاں یہ نابغۂ روزگار ہستیاں رہتی ہیں اگرچہ ان کی فلمیں دیکھ کر ہی آنکھیں کافی روشن ہوجاتی ہیں لیکن اسے قریب سے دیکھنے کی پیاس مزید بڑھ جاتی ہے اور اگر وزیراعظم مجھے ساتھ نہیں لے جاسکتے تو ان میں سے چنددانوں کو پاکستان آنے کی دعوت تو دے ہی سکتے ہیں اور اگرچہ میری عمر کا تقاضا تو یہ نہیں ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ آج کل عمر کو پوچھتا ہی کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے‘‘ جبکہ بھارت جانے کا مقصد بھی اسی عظیم مقصد کے لیے اضافی توانائی حاصل کرنا ہے جس کا وزیراعظم کو احساس کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
حکومت کے فوج سے اختلافات ہیں تو یہ بڑی ناکامی ہے ...یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''حکومت کے فوج سے اختلافات ہیں تو یہ بڑی ناکامی ہے‘‘ حالانکہ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح ہمارے ساتھ فٹ ہوگئی ہے فوج کے ساتھ بھی ہوجائے اور آرام سے اپنا کام کرتی رہے جس طرح پانچ سال تک ہم کرتے رہے ہیں جبکہ خاکسار کو تو ایک ہی کام آتا تھا جو اتنی تندہی سے سرانجام دیا کہ ایک مثال قائم ہوگئی اور ایم بی بی ایس کی ڈگری مفت میں مل گئی جس کی بنا پر اب میں فارغ وقت میں پریکٹس بھی کرلیتا ہوں اور مریدوں کی طرح ہر وقت مریضوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے اور محسوس ہی نہیں ہوتا کہ حکومت کی میعاد پوری ہونے کے بعد کوئی بے روزگاری وغیرہ کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہو۔ انہو ں نے کہا کہ '' حالیہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کو کھل کر لڑنے کے لیے میدان مہیا نہیں کیاگیا ‘‘ جس طرح خاکسار کو اپنے کام میں کھل کھلا کر حصہ لینے کا موقع دیاگیا تھا بلکہ میں نے وہ موقع خود ہی حاصل کرلیا تھا کیونکہ باقی حضرات بھی یہی کچھ کرنے میں مصروف تھے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔
حکمرانوں کا ایجنڈا ملک کو بحرانوں سے نکالنا نہیں ، کچھ اور ہے... پرویز مشرف
سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کا ایجنڈا ملک کو بحرانوں سے نکالنا نہیں، کچھ اور ہے ‘‘ اور اس کچھ اور میں اگرچہ بہت سی باتیں آجاتی ہیں لیکن اس میں میرا ٹینٹوا دبانا خاص طور پر شامل ہے حالانکہ میں کسی کا کیا لیتا ہوں کیونکہ جو کچھ میں کرتا رہا ہوں میری جگہ جو بھی دوسرا ہوتا یہی کچھ کرتا کیونکہ ہم لوگ جب مجبوراً آتے ہیں تو خیر مقدمی نعرے سن سن کر کچھ ہوش ہی نہیں رہتا کہ آخر کرنا کیا ہے، اس لیے امید ہے کہ اگر میرے بعد بھی کسی کو ملک بچانے کا خیال آئے تو ان باتوں کا خیال رکھے، اگرچہ سارا کچھ ملکی مفاد میں ہی کیا جاتا ہے جو ہم نہیں بلکہ خود بدلتا رہتا ہے اور بدنام مفت میں ہم ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمرانوں نے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ‘‘ جبکہ قوم میرے دیے ہوئے تحفوں سے اب تک لطف اندوز ہورہی ہے اور امید ہے کہ رہتی دنیا تک ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ '' میں نے ہمیشہ ملک اور قوم کے مفاد کا تحفظ کیا ‘‘ لیکن قوم کچھ اور ہی سمجھ رہی ہے لہٰذا اسے پہلی فرصت میں اپنا دماغی معائنہ کرانا چاہیے۔ آپ اگلے روز یوتھ ونگ پنجاب کے آرگنائزر سے فون پر بات کررہے تھے۔
پنجاب حکومت کی پالیسیاں کسان اور زراعت دشمن ہیں... منظور وٹو
پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ '' پنجاب حکومت کی پالیسیاں کسان اور زراعت دشمن ہیں‘‘ حالانکہ ہم نے اپنے دور میں کسی سے دوستی کی نہ دشمنی ، بلکہ اپنے ہی کام میں لگے رہے کیونکہ کسانوں کی طرح یہ بھی محنت کشی ہی کا کام تھا جس میں دماغ زیادہ لڑانا پڑتا تھا کہ کون کون سے کام میں زیادہ سے زیادہ عوامی فائدہ ہے جبکہ عجز و انکسار کی وجہ سے ہم عوام بھی اپنے آپ کو ہی سمجھتے تھے اور اپنی فلاح و بہبود کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا۔ انہو ں نے کہا کہ '' میری وارننگ کو حکومت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ اگر حکومت کی یہ پالیسیاں جاری رہیں تو عوام کی طرف سے سخت احتجاج ہوگا‘‘ جبکہ میں عوام ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہا ہوں جسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھنا چاہیے، جبکہ اصل بارش تو وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہم پر ہوا کرتی تھی اور جس سے موسلادھار کا محاورہ بھی وجود میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ '' پیپلزپارٹی اس سلسلے میں کسی مصالحت کو آڑے نہیں آنے دے گی‘‘ جس طرح ہم نے اپنے کاروبار میں کسی رکاوٹ کو آڑے نہیں آنے دیا۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا ایک بیان جاری کررہے تھے۔
آج کامقطع
سحر ہوئی تو ظفر دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں