یہ ایک عجیب بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے کوئی ڈھنگ کا ادبی رسالہ باقاعدگی سے نہیں نکل رہا اور یہاں کے سارے ادیبوں کا بوجھ بھی گویا کراچی والوں نے اُٹھا رکھا ہے جو زیادہ تر کتابی سلسلے ہیں جن میں ''دنیا زاد‘‘، ''اسالیب‘‘، ''زیست‘‘، ''اجراء‘‘ اور ''مکالمہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ لاہور سے جو پرچے شائع ہوتے ہیں ان میں ''سویرا‘‘، ''معاصر‘‘، ''ادبِ لطیف‘‘، ''الحمرا‘‘ اور ''بیاض‘‘ قابلِ ذکر ہیں جن کی‘ ایک دو کو چھوڑ کر‘ شکل کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے جبکہ ''آثار‘‘ اور ''سمبل‘‘ کافی عرصے سے غائب ہیں۔ ''تسطیر‘‘ سمیت راولپنڈی سے ''نیرنگِ خیال‘‘ بھی جوں توں کر کے نکل رہا ہے۔
لاہور میں عالمی ادبی کانفرنسیں البتہ سال میں ایک دو بار ہو جاتی ہیں؛ چنانچہ ادھر ادب تو منوں اور ٹنوں کے حساب سے تخلیق ہو رہا ہے لیکن ''ادبیات‘‘ اور ''ماہِ نو‘‘ جیسے سرکاری پرچوں کے علاوہ باقی سب خیریت نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ ''ادبیات‘‘ بھی مالی مسائل کا شکار ہے اور لطف یہ ہے کہ ''ماہِ نو‘‘ جیسے پرانے رسالے کو بھی پچھلے سال بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا جو بعد میں تبدیل یا غالباً مؤخر کردیا گیا۔ گویا جہاں تک ادبی رسالوں کا تعلق ہے یہاں طلب کے باوجود رسد ناپید ہے۔ سو‘ کاش اہل پنجاب بھی اس ضمن میں تھوڑی ''غیرت‘‘ کا مظاہرہ کرتے جو کہ ہنوز نہیں کیا گیا۔ پھر‘ مزے کی بات یہ ہے کہ کراچی کے رسالے بھی بالعموم ضخیم سے ضخیم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں وہاں سے ''کولاژ‘‘ کا تیسرا شمارہ موصول ہوا ہے جو ماشاء اللہ 672 صفحات کو محیط ہے۔ اسے اقبال نظر اور شاہدہ تبسم نکالتی ہیں۔ رسالوں کا مواد کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور ان کے اس قدر صحت مند ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہو کہ یہ پنجاب کے ادیبوں کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس رسالے کی خاص الخاص چیزوں میں اقبال نظر کی تحریریں ہیں جو بطور خاص دلچسپ ہیں۔ سو‘ مزاح کی چاشنی کے لحاظ سے اسے پورے نمبر دیے جا سکتے ہیں حالانکہ مزاح نگاری مشکل ترین اصنافِ ادب میں سے ہے۔ ورنہ ایڈیٹر حضرات کی تحریریں بالعموم واجبی سی ہی ہوتی ہیں۔ اور‘ یہ بھی موصوف سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا۔
اس کی دیگر خاص چیزوں میں ستیہ پال آنند کا گوشہ ہے۔ ان پر لکھے گئے مضامین میں ڈاکٹر غافر شہزاد کی تحریر اپنی دلچسپی کے لحاظ سے منفرد ہے۔ حصہ مضامین کافی وقیع ہے جس میں پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد‘ ساقی فاروقی‘ ڈاکٹر محمد علی صدیقی‘ انور سدید‘ اسد محمد خاں‘ حیدر قریشی‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ ڈاکٹر شاہد مفتی‘ عباس رضوی‘ انور سن رائے‘ محمد عاصم بٹ اور دیگران شامل ہیں جبکہ افسانوں میں سمیع آہوجہ‘ طاہرہ اقبال‘ ڈاکٹر سلیم اختر‘ مستنصر حسین تارڑ‘ جتیندر بلو‘ رشید امجد‘ مشرف عالم ذوقی‘ خالد فتح محمد‘ نجم الحسن رضوی‘ عبداللہ جاوید‘ انور زاہدی‘ محمد عاصم بٹ‘ اپنی اپنی ممتاز حیثیت سے موجود ہیں۔
منظومات کا حصہ بھی بھرپور ہے‘ اگرچہ بھرتی کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ حصہ غزل میں سے ایک ایک شعر:
میں اکیلا نہیں بنائوں گا
سب بنائیں گے باری باری چائے
(ساقی فاروقی)
اک دیا اور بجھانے والو
اک دیا اور جلانے دینا
(عبداللہ جاوید)
جانے کس سمت لیے جاتے ہیں رستے مجھ کو
جانے کس سمت سے آتی ہے تمہاری خوشبو
(سلیم کوثر)
بے گھری آپ کے دروازے تک آ پہنچی ہے
آپ دیوار کے اُس پار سلامت رہیے
(شاہین مفتی)
مصلحت کرنے نہیں دیتی ہے کھل کر انکار
میں اگر چُپ ہوں تو انکار نہ سمجھا جائے
(یعقوب تصور)
جس زمانے میں ترے عشق سے آباد تھا دل
میں ترے عشق کی تردید کیا کرتا تھا
(ڈاکٹر جواز جعفری)
دل ہے نمازی اور یہ دل ہی امام ہے
یہ بارگاہِ عشقِ علیہ السلام ہے
(سید کامی شاہ)
آ نکلتے ہیں اکثر ہمارے یہاں
وہ کہیں اور ہوتے ہواتے ہوئے
(انور شعور)
اس محبت کا ہے انجام جدائی پھر بھی
دھیان کتنا بھی شروعات میں رکھا جائے
(زکریا شاذؔ)
تم چپ رہو کہ بات کرو‘ سن رہا ہوں میں
میرے لیے ہے ایک صدا اور خامشی
(لیاقت علی عاصمؔ)
ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر
نہیں جانا تھا‘ پر جانا ضروری ہو گیا ہے
(حیدر قریشی)
چل دیئے یوں صنم کدے سے ہم
جیسے مل جائے گا خدا باہر
(بابر سلطان کاظمی)
بلندیوں پہ ہمیشہ ہمیں نہیں رہنا
ہم آفتاب ہیں اور شام کی اذاں تک ہیں
(ارمان رشید)
اجنبی دیس میں اک جھیل ہے‘ میں ہوں‘ تو ہے
اس سے آگے بھی تھا کچھ خواب مگر دُھند سی ہے
(حریم حیدر)
اور‘ اب خواجہ رضی حیدر اور سدرہ سحر عمران کی ایک ایک نظم:
گُلِ آتش
جس طرح سگریٹ کے جلتے سرے پر... جگمگاتا اک گُلِ آتش... اچانک ایش ٹرے میں گر کے... اپنی شکل کھو دیتا ہے۔ اک دن دیکھنا میں بھی... تمہارے روز و شب کی... مسکراتی بے خزاں دہلیز سے گر کر... فنا ہو جائوں گا... کھو جائوں گا۔
راجہ گدھ
اس نے اپنے اندر کی عورت محبت کے نام پر انڈیل دی... اور مرد سستی شراب کے بدلے عشق کے نام پہ کھیلتا رہا... تعلق حرام کی جمع پونجی کی نذر ہو جائے تو... سود جیسی لعنت سے پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ عورت ذائقہ بننے سے ہچکچائی تو مرد نے نئے سرے سے بساط رکھ دی۔... اب اسی بھنبھوڑی ہوئی خواہش کا کٹا پھٹا چہرہ... کسی سال خوردہ درخت کی نچلی شاخوں پہ خون تھوکتا رہتا ہے... دروازے کی کسی ان دیکھی درز میں آنکھ پتھر ہوئی ہے... اور نظر راستے کی گیلی راہداری میں لمس پٹختی رہتی ہے... ہاتھ کے ہاتھ جسم دیا اور مول چھپائے ہوئے وقت کی کلائی سے بندھا ہے... تہذیب کی کھلی شاہراہ پر ہزار گدھ آنکھیں سُکیڑے بیٹھے ہیں... اور قبرستان میں کسی تازہ لاش کی مہک پھیل رہی ہے!!
آج کا مقطع
نغمے کا سرِ شام وہ بجھنا، ظفرؔ، اک دم
پھر، ساری فضا کا مرے نالے سے چمکنا