آج مکھیوں کا سکور تو حسب معمول ہی رہا تاہم ایک ورائٹی یہ رہی کہ ایک بھِڑ میرے ہتھے چڑھ گئی۔ یہ مکھیوں کی طرح آپ کے قریب آنے کی اتنی شوقین نہیں ہوتی؛ چنانچہ لہراتی ہوئی میرے قریب سے گزر رہی تھی تو میں نے مکھی مار کے ایک فلائنگ شاٹ سے اسے دھر رکھا۔ یاد رہے کہ ایک بار آفتاب نے ایئرگن کے فلائنگ شاٹ سے ایک کوا مار گرایا تھا۔ بھلا ہے کوئی ماننے والی بات؟ بہرحال ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ چھتہ بنانے کی بجائے بھِڑوں نے ٹیرس کی چھت پر مٹی کا ایک گھر بنا رکھا تھا۔ بانس سے اُسے منہدم کرایا تو یہ کوئی ایسی پکی مٹی تھی کہ حیرت ہوئی۔ بعد میں آفتاب نے بتایا کہ یہ بھِڑوں نے نہیں بنایا تھا بلکہ یہ اسی نسل کے ایک مکوڑے ''گھر گھرائن‘‘ کی رہائش گاہ تھی۔ موصوف کو چونکہ میں حشرات الارض کے باب میں بھی سند سمجھتا ہوں اس لیے کوئی عُذر نہ کیا۔ دراصل یہ بھی بھِڑ ہی کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے اور یقینا کاٹتی بھی ہوگی بلکہ اس سے بڑے سائز کے بھِڑ کو کابلی بھونڈ کہتے ہیں جس کے کاٹنے سے بھی سوجن رونما ہوتی ہے اور درد بھی۔ اگر جلد اس کے کاٹے کا علاج نہ کیا جائے تو سانس رُک جانے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے؛ تاہم بھونڈ کا لفظ اب نظر باز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور عورتوں کو تاڑنے کا عمل بھونڈی لگانا کہلاتا ہے۔
چنانچہ جہاں تک گھرگھرائن کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے بھِڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والا محاورہ غلط ہو جاتا ہے کیونکہ یہ چھتہ ہوتا ہی نہیں۔ بھِڑ کا ڈنگ تو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن عام حالات میں یہ ڈنک مارتی نہیں اور بالعموم بچوں پر ہی طبع آزمائی کرتی پائی جاتی ہے۔ یہ خالص پیلے رنگ کی ہوتی ہے جبکہ گھر گھرائن میں برائون رنگ شامل ہوتا ہے جبکہ کابلی بھونڈ میں برائون رنگ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ کابل کے ساتھ اس کا تعلق کوئی ہے یا نہیں‘ اور اگر ہے تو اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے‘ اس بارے حکماء خاموش ہیں‘ البتہ یہ افغانی طالبان سے بہت پہلے موجود تھا۔ بھِڑ سخت جان کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے یعنی فلائنگ شاٹ سے بھی صرف زخمی ہوئی تھی اور کچلنے پر بھی ابھی اس میں دم خم موجود تھا۔
میں ناشتہ کر کے کمرے میں آ گیا تھا لیکن اسی دوران کھڑکی کے شیشے سے تیز ہوائیں چلنے اور بادلوں کی آمد صاف دکھائی دینے لگی۔ میں پھر باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وقفے وقفے سے بارش ہونے لگی۔ بارش اللہ میاں کی کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کا صحیح اندازہ لوڈشیڈنگ کے دوران ہی ہو سکتا ہے۔ اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس سے سبزے اور پھولوں پر کیسا نکھار آ جاتا ہے‘ بارش پر میں نے بے شمار شعر کہہ رکھے ہیں۔ فی الحال صرف ایک ہی نظر کرتا ہوں ؎
اب تو بارش ہو ہی جانی چاہیے‘ اس نے کہا
تاکہ بوجھ اُترے پرانی گرد کا اشجار سے
اسی دوران بادل بھی زوروں سے گرج رہا تھا اور برقِ بلاخیز بھی آنکھیں مار رہی تھی۔ آفتاب کی چھوٹی بیٹی نیحا نے ایک بادل گرجتے سنا تو بولی: ''بادل کھڑک رہا ہے‘‘
میرے خیال میں اس کے لیے یہ لفظ گرجنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ گرجنے کے ساتھ شیر کی دھاڑ یاد آتی ہے۔ نئے لفظ اسی طرح پیدا ہوتے ہیں‘ ارادتاً اور بے دھیانی میں بھی۔ میری شاعری میں اس بدعت کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔
بارش پر میری پوری پوری غزلیں بھی ہیں۔ ایک غزل اساتذہ میں سے کسی کی زمین میں تھی۔ ان دنوں انتظار حسین روزنامہ ''آفاق‘‘ کے ادبی ایڈیشن کے انچارج تھے‘ جہاں میری غزلیں بھی چھپا کرتیں؛ چنانچہ میں نے درج ذیل غزل انہیں بھیجی جو انہوں نے چھاپ تو دی مگر دوسرے ہفتے وہ کسی استاد والی غزل بھی چھاپ دی جس میں میرے لیے یہ پیغام تھا کہ ع
دیکھا اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
............
کڈھب کرشمہ‘ عجب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
لگا ہے کیسا غضب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
وہ شوخ بھی ہوگا سب میں شامل‘ کہیں چمکتا‘ کہیں مہکتا
کہ دیکھتے ہوں گے جب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
چلی تھیں پہلے تو کوچے کوچے میں ابر آلود سی ہوائیں
ہوا ہے آغاز اب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
برستی بارش کے نرم قطرے جو گیسوئوں میں مچل رہے ہیں
اور‘ اس پہ ہے رنگِ لب تماشا‘ فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
یہ صحن و در میں نہاتے چھینٹے اڑاتے گاتے کھلنڈرے بچے
دکھا رہے ہیں طرب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
چھریرے بھیگے بدن پہ ہر دم پھسلتی بوندیں‘ مہکتی چولی
ہوا تھا پہلے یہ کب تماشا‘ فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
کڑکتی بجلی کے ڈر سے یکلخت وہ جو مجھ سے لرز کے لپٹے
ہوا ہے بھرپور تب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمین پہ باراں
ہزار بہہ جائے گھر کا سارا ہی سازو سامان بارشوں میں
لگے یہی روز و شب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
برس رہا ہے ظفرؔ چھما چھم چھت اور دالان پر جو پانی
اسی کے دم سے ہے سب تماشا‘ فلک پہ بجلی‘ زمیں پہ باراں
آج کا مقطع
طاقت ہیں برگ و بار تو پھر کیا ہوا، ظفرؔ
یہ محفلِ ہوا کہیں برپا تو ہوئے گی