انقلاب الیکشن کے ذریعے
ہی آئے گا...نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ '' انقلاب الیکشن کے ذریعے ہی آئے گا‘‘ جیسا کہ پچھلے سال آیا تھا بلکہ آیا کہاں تھا، بڑے جتنوں سے لایاگیا تھا اور طرح طرح کے طعنے بھی سننے پڑے تھے‘ لیکن اگر طعنوں پر توجہ دیتے تو ان بدنصیب عوام پر حکومت کون کرتا، اور اگرچہ دوسروں کا کام بھی ہمیں کرنا پڑا کیونکہ پنکچر وغیرہ لگوانا ق لیگ والوں کا کام تھا جن کا انتخابی نشان ہی بائیسکل تھا لیکن ہمیں ملک کے وسیع ترمفاد میں شیر کو بھی پنکچر لگوانا پڑے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ '' دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں فتح یاب ہوں گے‘‘ کیونکہ مذاکرات میں بھی اخلاقی فتح ہماری ہی تھی اور آخر فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے ہمیں آپریشن شروع کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ '' مستقبل جمہوریت سے جڑا ہے‘‘ بلکہ ہمارا تو ماضی اور حال بھی جمہوریت ہی سے جڑا ہے کیونکہ چھپر پھاڑ کر جمہوریت ہی دیتی ہے‘ خاص طور پر یہ جمہوریت جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
گرینڈ الائنس بنانے کا کبھی
نام تک نہیں لیا...طاہرالقادری
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ '' گرینڈ الائنس بنانے کا کبھی نام تک نہیں لیا‘‘ کیونکہ ہم جو کام کرتے ہیں اس کا نام لینے کی زیادہ تر ضرورت نہیں ہوتی جبکہ انقلاب کا نعرہ بھی بس برائے نام ہی ہے کیونکہ دراصل ہمارا مقصد کچھ اور ہی ہے‘ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہم جن مہربانوں کے لیے زمین ہموار کررہے ہیں‘ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور اوپر سے عمران خان نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے؛ چنانچہ اکیلے ق لیگ والوں سے الائنس بنانا گرینڈ تو نہیں البتہ وہ سینڈ(ریت) الائنس ہی رہے گا اور جس کی عمر بھی اتنی ہی رہے گی جتنی ریت کی دیوار کی ہوا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے مشورہ کروں گا ‘‘ تاکہ وہ گرینڈ الائنس وغیرہ بنانے سے پرہیز کی تلقین کریں اور کسی دوسرے اور بہتر کام کی طرف متوجہ ہوسکوں کیونکہ اتنی دور سے آیا ہوں‘ آخر کچھ نہ کچھ کرنا تو پڑے گا ہی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
دو ماہ میں کیا ہونے والا ہے
آج اعلان کروں گا...عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ '' دو ماہ میں کیا ہونے والا ہے، آج اعلان کروں گا‘‘ اور اگر دو ماہ کے بعد کچھ نہ ہوا تو اگلے دو ماہ کے لیے پھر اعلان کروں گا اور یہ سلسلہ طول بھی پکڑ سکتا ہے‘ لیکن گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ قوموں کی زندگی میں وقت کی خاص اہمیت نہیں ہوا کرتی۔ انہوں نے کہا کہ '' لانگ مارچ کے لیے کسی سے اتحاد نہیں کریں گے‘‘ البتہ دوسرے ہمارے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں جس سے یہ مارچ مزید لانگ ہوسکتا ہے۔ انہوں کہا کہ '' یہاں شاہی خاندان کے لوگ 25‘25لاکھ روپے کے کتے اور 22‘22کروڑ کی گاڑیاں خرید لیتے ہیں‘‘ چنانچہ خاکسار بھی اس کوشش میں ہے کہ اقتدار حاصل کرکے ان نعمتوں سے فیض یاب ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ '' ہم تمام کشتیاں جلاکر میدان میں نکلیں گے‘‘ اگرچہ سونامی کے دوران ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہمیں خود کشتیوں کی ضرورت پڑے گی اسی لیے سونامی لانے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ اسے لایا جائے یا رہنے دیاجائے ۔ آپ اگلے روز ایک مقامی کلب میں اپنے نجی کالج کی فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔
تحریک انصاف کے مطالبات
فوری تسلیم کیے جائیں...منظور وٹو
پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ '' تحریک انصاف کے مطالبات فوری تسلیم کیے جائیں‘‘ ورنہ حکومت مجھے خوب اچھی طرح سے جانتی ہے اور اگر نہیں جانتی تو کسی سے بھی پوچھ لے کیونکہ میرے اعمال صالحہ کی بنا پر ساری دنیا مجھے خوب اچھی طرح سے جانتی ہے اور مزید جاننے کی خواہش بھی رکھتی ہے کیونکہ جوں جوں ہمارے کارہائے نمایاں کا پتہ چلتا ہے توں توں لوگوں کا اشتیاق بڑھتا جاتا ہے اور وہ حیران ہیں کہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ ابھی تک ملک عزیز میں موجود ہیں جن کی زیارت ویسے بھی کار ثواب میں شامل ہے۔ انہوں کہا کہ ''چار حلقوں میں ووٹرز کی تصدیق کے التوا سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے‘‘ حالانکہ ہم نے اپنی ساری دال ہی کالی کررکھی تھی تاکہ دال میں کالا نظر ہی نہ آسکے ۔ انہوں نے کہا کہ '' سینیٹر زاہد خاں کو مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا کہ میں طاہرالقادری سے ملنے کیوں گیا‘‘ اگرچہ راز کی بات میں نے انہیں بھی نہیں بتانی تھی۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
آئی ڈی پیز کے سلسلے میں حکومت بری طرح ناکام ہوگئی ہے...چودھری شجاعت
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ '' آئی ڈی پیز کے سلسلے میں حکومت بری طرح ناکام ہوگئی ہے‘‘ حالانکہ اسے اچھی طرح ناکام ہونا چاہیے تھا اور ہم سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا جو ہمیشہ اچھی طرح ناکام ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے تھا‘‘ یا کم از کم ہمارے ساتھ ہی مشورہ کرلیتی کیونکہ آج کل ہم کافی فارغ ہیں اور مختصر نوٹس پر مشورہ دینے کے لیے تیار رہتے ہیں جبکہ ہمارے مشوروں کی فہرست خاصی طویل ہے اگرچہ ان پر عمل ذرا کم ہی کیا جاتا ہے‘ جیسا کہ جنرل مشرف نے ہمارے مشورے پر عمل نہ کیا اور وردی اتار کر رکھ دی حالانکہ ہم انہیں مزید نوبار صدر منتخب کروانے کے لیے تیار تھے اور اب ہاتھ مل رہے ہیں۔ اس لیے اگر حکومت بھی بعد میں پچھتانا نہیں چاہتی تو فوری طور پر ہماری خدمات حاصل کرے، پیشتر اس کے کہ ہم طاہرالقادری صاحب کو کوئی تیربہدف مشورہ دیں اور حکومت کے لیے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہوجائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، بہت ہی ضروری ہے مچھلیوں کی طرح
یہ رات دن میری آنکھوں کا آب میں ہونا