عوام کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم
پر نہیں چھوڑیں گے... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے‘‘ کیونکہ انہیں جو ہم نے اپنے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے وہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''رمضان کے دوران قیمتوں کی نگرانی خود کروں گا‘‘ جبکہ اگلے روز ماڈل ٹائون میں ہونے والے واقعہ کی نگرانی بھی میں نے خود کی تھی لیکن پولیس والے آخر پولیس والے ہیں‘ وہ کسی کا کہا کب مانتے ہیں‘ اور انہیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ اگر ایسا کریں تو ہمیں الیکشن کون جتوائے گا کہ پنکچر لگانے والے ہر دفعہ دستیاب نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ''اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘ کیونکہ ہم سمجھوتے کرتے کرتے تنگ آ گئے ہیں؛ چنانچہ اس دفعہ سمجھوتہ نہ کرنے کا ارادہ کیا ہے لیکن کیا کریں سمجھوتہ اپنے آپ ہی ہو جاتا ہے اور ہمیں کوئی پتہ ہی نہیں چلتا؛ تاہم کوشش اور ارادہ کرنے میں کیا ہرج ہے۔ آپ اگلے دن بغیر پروٹوکول کے اوکاڑہ کے بازاروں کا دورہ کر رہے تھے۔
ماڈل ٹائون میں پولیس کو گولی
چلانے کا حکم نہیں دیا... رانا ثناء
سابق صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ماڈل ٹائون پولیس کو گولی چلانے کا حکم نہیں دیا‘‘ بلکہ معمولی سا
اشارہ کیا تھا جس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ 14 لوگ مار دیے جائیں جبکہ پانچ سات پر ہی گزارا ہو سکتا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ پولیس ابھی اشاروں کی زبان اچھی طرح سے نہیں سمجھتی‘ جس کے لیے عنقریب اسے ایک ریفریشر کورس کرایا جائے گا تاکہ روز روز کی بدنامی سے بچے رہیں جبکہ میری غریب مار تو مفت میں ہی ہو گئی حالانکہ جملہ فائلیں ابھی تک احکامات کے لیے توقیر شاہ کے گھر جا رہی ہیں جبکہ میرے معاملے میں بھی کوئی اسی طرح کا انتظام ہو سکتا تھا چنانچہ میری تلافیٔ مافات کے لیے حکومت کو معلوم نہیں کیا کیا کرنا پڑے گا کیونکہ میرے جیسے سرفروشوں کے بغیر حکومت کی گاڑی بھی تو نہیں چل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''انہیں صرف بیریئر ہٹانے کے لیے کہا تھا‘‘ لیکن انہوں نے بندے بھی ہٹانے شروع کردیے حالانکہ بندوں اور بیریئرز میں کافی فرق ہوتا ہے لیکن انہیں کون سمجھائے۔ آپ اگلے روز انکوائری ٹربیونل کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے تھے۔
بعض عناصر غیر ملکی لابی کے اشاروں
پر چل رہے ہیں... رانا مشہود
صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا مشہود احمد خاں نے کہا ہے کہ ''بعض عناصر غیر ملکی لابی کے اشاروں پر چل رہے ہیں‘‘ حالانکہ اس کے لیے ملکی لابی بھی موجود ہے یعنی آخر ہم کس مرض کی دوا ہیں‘ افسوس کہ ہم میں سے قومیت کا احساس ہی ختم ہو رہا ہے۔ آخر اس صوبے کا کیا بنے گا اور وزیراعلیٰ اس پر‘ یعنی لاہور کی تعمیر و ترقی پر جتنی محنت کر رہے ہیں‘ کہیں وہ ضائع ہی نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''قادری اور عمران جو حرکتیں کر رہے ہیں‘ ان سے انتشار کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی‘‘ اور ملک میں اتفاق و اتحاد کا جو مثالی ماحول قائم ہے‘ اس سے اسے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''شیخ رشید سیاست کا گدھ ہے جو دوسروں سے شکار کروا کر مردار کھا رہا ہے‘‘ جبکہ ہم خود اپنا شکار کر کے کھاتے ہیں اور پنجاب کی پوری شکارگاہ ہماری دسترس میں ہے اور ہمارا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا‘ جس کے لیے ہماری پولیس کا نشانہ ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ جسے چاہتی ہے بڑی آسانی سے مار گراتی ہے اور جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کینیڈا کی امداد سے ایک ہاسٹل کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکوڈیک کے لیے بین الاقوامی سطح پر
ٹینڈر جاری کریں گے... ارسلان افتخار
سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے صاحبزادے جو فی الوقت اپنے تقرر کے معاملے میں پیدا ہونے والے تنازعے میں پھنسے ہوئے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ''ریکوڈیک کے لیے بین الاقوامی سطح پر ٹینڈر جاری کریں گے‘‘ بشرطیکہ اس سے پہلے کہیں میرا ہی ٹینڈر جاری نہ کردیا گیا جبکہ والد صاحب پر بھی الیکشن 2013ء کے حوالے سے جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور اگر وہ تھنک ٹینک بنانے میں اتنے مصروف نہ ہوتے تو خود اس کا جواب دیتے ورنہ الیکشن میں ان کا کردار صرف خداترسی پر مبنی تھا‘ نیز وہ احسان کا بدلہ بھی چکانا چاہتے تھے کیونکہ وہ احسان فراموش نہیں ہیں جبکہ حکومت بھی ماشاء ا للہ احسان فراموش نہیں ہے‘ اسی لیے خاکسار کو میرٹ اور صرف میرٹ پر اتنے بڑے عہدے پر سرفراز کیا گیا ہے کیونکہ والد صاحب کی کارگزاری بھی کوئی چھوٹی موٹی نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''زیادہ بولی دینے والے کو ٹھیکہ دیں گے‘‘ اور ابا جان ے بھی اسی فارمولے پر عمل کیا تھا کیونکہ سب سے زیادہ حق زیادہ بولی دینے والے ہی کا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز دبئی سے ایک اخباری نمائندے سے ٹیلی فونک بات چیت کر رہے تھے۔
سیاسی اتحاد وقت کی
اہم ضرورت ہے... منظور وٹو
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''سیاسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے‘‘ جبکہ ہمارے دور میں جس چیز کی اہم ضرورت تھی ہم نے اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور جو دنیا میں ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ اس کار خیر میں جملہ حضرات پورے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کر رہے تھے بلکہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش میں مصروف تھے حتیٰ کہ اب یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کون کس سے آگے تھا کیونکہ ماشاء اللہ پیچھے کوئی بھی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''قومی وحدت کے لیے وزیراعظم کو تمام سیاسی جماعتوں کو لازمی طور پر ذاتی دعوت دینی چاہیے‘‘ اور ہمارے معززین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ہماری طرح وقت کی پوری پوری قیمت وصول کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین قابلِ احترام ہیں‘‘ حتیٰ کہ ہماری جماعت کے قائدین بھی اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
جل رہا ہے میرا دل بھی مری آنکھیں بھی، ظفرؔ
اس چکا چوند میں اب چاہیے کیا اور چراغ