پچھلے دنوں ''خبرنامۂ شب خون‘‘ کے ہمراہ جناب شمس الرحمن فاروقی نے احمد محفوظ کے ذریعے تین کتابیں بھی بھجوائی تھیں۔ جن میں ندیم احمد کی ''غزالِ شب‘‘، ''تعصبات اور تنقید‘‘ اور احمد محفوظ کی ''بیانِ میرؔ‘‘ شامل ہیں۔ ''غزالِ شب‘‘ ندیم احمد کا مجموعۂ کلام ہے جس کا انتساب اس طرح سے ہے:
''غالب کے بعد اردو غزل کے سب سے بڑے تجربہ کوش
ظفر اقبال
کے نام
ستم ظریفیِٔ قسمت تو دیکھیے کہ ظفرؔ
چھُٹی شراب تو یاری کلیم خاں سے ہوئی‘‘
اس کے علاوہ میرا ایک قول بھی ابتدا میں نقل کیا ہے۔ میں بہرحال اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے معذور ہوں‘ سوائے اس کے کہ موصوف سے پوچھوں کہ کیا اس انتساب کی پاداش میں فاروقی صاحب نے آپ کا حقہ پانی بند نہیں کیا؟ یا ان کے چند شعر نقل کردوں؛ تاہم کتاب کے پسِ سرورق پر شاعر کا جو تعارف درج ہے‘ وہ نقل کیے دیتا ہوں جس کے مطابق:
''ندیم احمد 1979ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان دنوں وہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی سے اثر پذیری نے انہیں نظری تنقید کی طرف مائل کیا۔ ان کا شمار نئی نسل کے ان نمائندہ نقادوں میں ہوتا ہے جنہیں نظری تنقید
کے مسائل سے دلچسپی ہے اور جو ادب اور تہذیب کے آپسی رشتوں کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور عالمی ادب پر ان کی نظر بڑی گہری ہے۔ کلاسیکی شعریات کے علمیاتی اور وجودیاتی تصورات پر زبردست قابو رکھنے والے ندیم احمد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ''بازیافت‘‘ 2005ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے انشا اللہ خاں انشا کے فن اور شخصیت پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ ''غزالِ شب‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ ہندو پاک کے شعری منظرنامے پر نمودار ہونے والے شاعروں میں جن لوگوں نے تقریباً سب کی توجہ اپنی طرف منعطف کی ہے ان میں ندیم احمد کا نام بہت نمایاں ہے۔ وہ زبان کے گلی کوچوں سے اچھی طرح واقف ہیں‘ اس لیے انہیں معلوم ہے کہ شعر بنتا کس طرح ہے‘‘
اب ان کے کچھ اشعار:
کہیں کچھ چھوڑ آیا ہوں یقینا
اگرچہ ساتھ ہے سامان سارا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا لیکن
سنا ہر شخص نے اعلان سارا
یوں تو بیکار ہیں پر دیکھ تو لو
کیا پتہ کام میں آنے لگ جائیں
روز اٹھتا ہوں تو یہ دیکھنا پڑتا ہے مجھے
کل جو موجود تھا وہ آج بھی ہے بھی کہ نہیں
خموشی مطلب و معنی سے آگے
نکلنے کا اشارہ چاہتی ہے
اسی سے کچھ توازن آج بھی قائم ہے مجھ میں
مرے اوپر جو اک بارِ گراں رکھا ہوا ہے
اس کے علاوہ کتاب میں متعدد نظمیں بھی شامل ہیں جو ''رہروانِ ادب‘‘ علی گڑھ نے چھاپی ہے اور قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ دوسری کتاب ''تعصبات اور تنقید‘‘ میں بھی میرا حوالہ کوئی آٹھ مرتبہ آیا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس پر بھی اظہارِ خیال نہ کروں کہ تنقید جیسے ثقیل اور خشک مضمون پر میں لکھ بھی کیا سکتا ہوں؛ تاہم فاضل مصنف نے مندرجہ ذیل موضوعات پر اپنا اظہارِ خیال کیا ہے: (1) کلاسیکی ادب اور نئی نسل کا معاملہ‘ (2) نئی نسل اور غالب کا خوف‘ (3) سجاد ظہیر... فکری سیاست یا نظری بحران‘ (4) ممتاز شیریں کی تنقید نگاری‘ (5) فراق کی غزل اور روایت کا معاملہ‘ (6) فیضؔ کی شاعری اور کلاسیکی شعریات‘ (7) جون ایلیا کا قصہ‘ (8) شہناز نبی کی نظم 'میں کیوں مانوں‘ (9) بیانیہ کی روایت اور راجندر سنگھ بیدی‘ (10) غلام عباس کے افسانے... بیانیہ اور بیان کنندہ کا معاملہ‘ (11) قرۃ العین حیدر... تاریخ کا جبر یا تہذیبی بحران‘ (12) نئی نسل اور شناخت کا مسئلہ‘ (13) اردو نثر کی روایت اور مولانا ابوالکلام آزاد‘ (14) اقبال اور تہذیبوں کا ٹکرائو اور (15) شمس الرحمن فاروقی سے بات چیت۔ یہ کتاب بھی رہروانِ ادب علی گڑھ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔
احمد محفوظ کی تصنیف ''بیانِ میرؔ‘‘ میرؔ سے متعلق مضامین ہیں‘ جو ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی نے چھاپی ہے اور لائبریری ایڈیشن کی قیمت 210 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب اس طرح سے ہے:
''استادِ معنوی‘ مکرمی جناب شمس الرحمن فاروقی
کی خدمت میں
جن کی دولت سے مجھے میرفہمی کا شعور حاصل ہوا
قانع بہ ریزہ چینیِ انجم نیم چو ماہ
از خوانِ آفتاب لبِ نانم آرزوست
صائبؔ‘‘
نہایت سادہ اور ''غیر نقادانہ‘‘ انداز میں اس کتاب میں میرؔ کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ جناب شمس الرحمن فاروقی نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ''شعرِ شور انگیز‘‘ میں‘ جو چار جلدوں میں شائع ہوئی تھی‘ بقول شخصے قلم توڑ کر رکھ دیا تھا اور مزید کچھ زیادہ اس بارے کہنے سننے کی گنجائش نہیں تھی؛ تاہم ایک بڑے شاعر کے حوالے سے اس کی شاعری پر نت نئے انداز سے خیال آرائی کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے۔ اس کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات سے ہی اس کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ ہو جاتا ہے جو کچھ اس طرح سے ہیں:
1۔ تذکروں میں محاکمۂ میرؔ
2۔میرؔ کا جہانِ دیگر
3۔ میر تقی میرؔ اور پست و بلند کا مسئلہ
4۔ مقدمۂ مزامیر پر ایک نظر
5۔ میرؔ کی خیال بندی
6۔ میرؔ کے کلام میں عام انسانی صورتِ حال
7۔ میرؔ کی غزل میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر
پیش لفظ میں مصنف نے ان مضامین کے بارے میں مزید مفید معلومات فراہم کی ہیں۔
آج کا مقطع
وہ بھی، ظفرؔ، بھُگتا بیٹھا ہوں
یہ بھی کیا گوارا میں نے