یہ وقت اتحاد اور آئی ڈی پیز کی
خدمت کا ہے... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''یہ وقت اتحاد اور آئی ڈی پیز کی خدمت کا ہے‘‘ کیونکہ ہم اپنی خدمت بھی زیادہ تندہی سے اب نہیں کر رہے بلکہ اس پاک صاف مینڈیٹ کو بچانے کی زیادہ فکر ہے جس کو لگتا ہے کسی کی نظر لگ گئی ہے لہٰذا ساتھ ساتھ اس کی نذر اتارنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ وقت انتشار کی سیاست کا نہیں‘‘ کیونکہ انتشار تو انشاء اللہ پہلے ہی تھوک کے حساب سے موجود ہے‘ اسے مزید برپا کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے سوا سال کوئی یونہی بیٹھے تو نہیں گزار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے‘‘ جس میں ماشاء اللہ ہمارا فیض بھی شامل ہے کیونکہ اگر وقت پر آپریشن شروع کردیتے اور مذاکرات کا ڈھونگ نہ رچایا جاتا تو صورت حال بہت مختلف ہوتی لیکن ایک تو چودھری نثار صاحب نے ہمیں کچھ نہیں کرنے دیا اور کچھ ہماری اپنی نظریں بھی ان کے سامنے نیچی تھیں جنہوں نے ہمارے ساتھ خاصا تعاون بھی کر رکھا تھا۔ آپ اگلے روز مری میں ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا تاثر
جلد ختم کردیں گے... خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا تاثر جلد ختم کردیں گے‘‘ کیونکہ لوہا گرم ہونے پر ہی چوٹ لگائی جا سکتی ہے جو کافی حد تک تپنا شروع ہو گیا ہے اور ملک کے بہترین مفاد میں عمران خان اور طاہرالقادری کے مارچوں میں شامل ہونے کا سرپرائز دیں گے‘ اگرچہ یہ کوئی سرپرائز نہیں ہوگا بلکہ صورت حال کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلام آباد میں فوج بلا کر نوازشریف سیاسی غلطی کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ غیر سیاسی غلطیاں بھی کرنا شروع کردیں کہ ہر چیز میں ورائٹی ہی اچھی لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلام آباد کو کوئی خطرہ نہیں‘‘ البتہ حکومت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حکومتیں تو آتی جاتی ہی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم سے اس بارے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا‘‘ اور اگر کیا جاتا تو شاید ہم بھی اس کی تائید کرتے کیونکہ اس سے خطرہ صرف حکومت کو ہو سکتا ہے اور اپوزیشن ایسے ہی سنہری مواقع کے لیے گھات لگا کر بیٹھی ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کا حُسن بھی ہے۔ آپ اگلے روز ٹی وی پر ٹیلیفونک گفتگو کر رہے تھے۔
دھرنوں‘ مارچ کے اعلانات کی
کوئی اہمیت نہیں... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دھرنوں‘ مارچ کے اعلانات کی کوئی اہمیت نہیں‘‘ کیونکہ اگر یہ کامیاب بھی ہو جائیں تو میرے لیے اس کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے کیونکہ میرے ہاتھ تو دونوں صورتوں میں کچھ نہیں آنا‘ اور سیاست میں ساری بات کچھ ہاتھ آنے ہی کی ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے ہاتھ پائوں‘ دونوں مارنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف اوچھے ہتھکنڈوں سے جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی‘‘ جبکہ اس کار خیر کے لیے اسے دیگر ہتھکنڈوں کو آزمانا چاہیے جس میں ہم ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو لانگ مارچ سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ اس کا کام ویسے بھی تمام ہونے والا ہے کہ ہر چیز اپنے انجام کو پہنچ کر ہی دم لیتی ہے جبکہ آئے روز کے اعلانات کے باوجود یہ ابھی تک خیبر پی کے کی حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکی جس کے انتظار میں ،میں تو اب واقعی بوڑھا ہونے لگا ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
غلطی ہوئی تو اللہ سے معافی
مانگتا ہوں... رانا ثناء اللہ
سابق صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو اللہ سے معافی مانگتا ہوں‘‘ جبکہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا اللہ مالک ہے‘ اور انہیں بھی اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''فائر کھولنا موقع پر موجود اہلکاروں کی غلطی تھی‘‘ اور اگر میں نے خدانخواستہ انہیں کہا بھی ہو تو ہماری بہادر اور قانون پسند پولیس کو کسی غیر قانونی حکم کی تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران مقبول لیڈر ہے‘‘ لیکن صرف مقبول ہونا ہی کافی نہیں ،الیکشن میں اسے پنکچر لگانے یا دوسروں کو اس کام سے روکنے کا ہنر بھی آتا ہو‘ ورنہ وہ نتیجہ نہ نکلتا جو موصوف نے دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر رکن اسمبلی ڈویلپمنٹ کے کاموں میں 16 فیصد کمیشن وصول کرتا ہے‘‘ جسے ان کا حق الخدمت ہی کہا جاسکتا ہے جبکہ اونچی سطح پر حق الخدمت اتنا ہی زیاد ہ ہوتا جاتا ہے۔
عمران خان کا ایجنڈا انتخابی
اصلاحات نہیں...پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عمران کا ایجنڈا انتخابی اصلاحات نہیں‘‘ بلکہ وہ ساتھ ساتھ ہماری اصلاح بھی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ جو دُھر درگاہ کے بگڑے ہوئے ہوں‘ اُن کی اصلاح کون مائی کا لال کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ پارٹی انتخاب میں دھاندلی کا فیصلہ نہیں کر سکے‘‘ جبکہ ہمارے ہاں تو پارٹی انتخابات کا کوئی مذاق روا ہی نہیں رکھا جاتا بلکہ چٹ اور پرچی سسٹم ہی چلتا ہے کیونکہ بادشاہی نظام میں پارٹی انتخابات ویسے بھی اس سسٹم کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ تمام صوبوں کی اسمبلیاں توڑ کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسمبلیاں پہلے بنانا پڑتی ہیں‘ جیسا کہ ہم نے کچھ سب کے سامنے اور کچھ اندرخانے ہی بنا لی تھی اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی اور اب فضول شور مچایا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ہمارے ساتھ وہ، ظاہر ہے، جو کچھ کرنے والے ہیں
اور، اُس کے ساتھ ہی الزام جس پر دھرنے والے ہیں