"ZIC" (space) message & send to 7575

طوطوں کا صفحہ

پیارے طوطو!
ہمیں معلوم ہے کہ آپ اخبار وغیرہ نہیں پڑھ سکتے تاہم اپنے مالک سے پڑھوا کر اس سے حسب خواہش استفادہ کرسکتے ہو۔ چونکہ آپ لوگوں کی اکثریت طوطوں کی طرح صرف ٹیں ٹیں ہی نہیں کرتی رہتی بلکہ باتیں بھی کرتی ہے۔ بیشک اخبار نہ پڑھ سکنا آپ کے لیے ناک کا مسئلہ بھی ہوگا کیونکہ آپ کی شخصیت کا اہم ترین حصہ آپ کی ناک ہی ہے بلکہ اب تو طوطے جیسی یا طوطا کٹ ناک بھی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوق کے لیے بھی کوئی صفحہ مخصوص کیاجائے ۔ سو آپ کے لیے یہ بات قابل فخر ہونی چاہیے کہ اس سلسلے میں آپ کے طبقے کو اولیت دی جارہی ہے۔ پھر ہمیں معلوم ہوا ہے کہ عوام کی اکثریت کی طرح آپ کو بھی طرح طرح کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ مثلاً چوری آپ کو بروقت اور صحیح مقدار میں نہیں ملتی حالانکہ یہ فقرہ تو اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جو آپ سے ہر کوئی پوچھتا ہے کہ میاں مٹھو چُوری کھانی ہے؟ جبکہ معاملہ صرف پوچھنے کی حد تک ہی رہتا ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ اپنے خرچے ہی پورے نہیں ہوتے آپ کو اتنی چوری کہاں سے کھلائی جائے کہ آپ لوگوں کاپیٹ بھر جائے حالانکہ جتنا آپ کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا شوق ہے اس کا تقاضا بھی ہے کہ آپ کی ضروریات کا پورا خیال رکھا جائے بلکہ آپ لوگ طرح طرح کے جتنے رنگوں میں پائے جاتے ہیں ،آپ کی خوراک میں بھی مناسب ورائٹی ہونی چاہیے۔ امید ہے کہ یہ صفحہ آپ کو پسند آئے گا اور اپنے مالک کے ذریعے اپنی قیمتی رائے بھی ظاہر کریں گے کہ آپ کو یہ سلسلہ کیسا لگا ہے تاکہ آپ کی تجاویز کی روشنی میں اسے زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جاسکے۔ 
سبق آموز واقعات
٭...ایک صاحب نے طوطا پال رکھا تھا اور اس کا پنجرہ باہر گلی میں لٹکایا ہوا تھا۔ طوطے کا معمول تھا کہ جب ایک شخص اس کے پاس سے گزرتا تو اس سے کہتا۔
''منحوس، پھر آگئے ہو؟‘‘
وہ شخص جب بہت تنگ پڑا تو اس نے طوطے کے مالک سے اس کی شکایت لگائی کہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ چنانچہ ان صاحب نے طوطے کو سختی سے ڈانٹا اور آئندہ ایسی حرکت سے منع کیا۔ دوسرے روز جب وہ شخص معمول کے مطابق وہاں سے گزرا تو پیچھے سے طوطے نے زبردست قہقہہ لگایا، جس پر اس نے مڑ کر پوچھا۔
'' کیا کہا ؟ ‘‘ جس پر طوطے نے کہا۔
'' تم سمجھ تو گئے ہوگے !‘‘
٭...ایک طوطا رومان پسندی میں اس حد تک چلا گیا کہ فاختہ، کوئل اور بلبل وغیرہ سے بھی دوستیاں گانٹھ لیتا تھا ۔ ایک دن وہ باہر نکلا تو کافی دیر تک واپس نہ آیا۔ اس کے ساتھیوں کو فکر ہوئی تو وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ آخر انہوں نے دیکھا کہ قریبی صحرا میں وہ ریت پر ادھ مؤا سا پڑا ہوا ہے اور ایک چیل اس کے سر پر منڈلا رہی ہے۔انہوں نے جب اس سے پوچھا کہ یہاں کیا کررہے ہو تووہ بولا،
''شی ... چیل کو قریب لا رہا ہوں !‘‘
٭... ایک شخص نے ایک سبز اور ایک سرخ رنگ کے دو طوطے پال رکھے تھے ۔ ایک دن پنجرے کا دروازہ کہیں کھلا رہ گیا تو دونوں اڑ کر گھر کے سامنے والے درخت پر جا بیٹھے ۔ مالک نے انہیں بہت اشارے کیے اور چوری وغیرہ کا لالچ بھی دیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ آخر اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے ایک لڑکے کو پانچ روپے کا نوٹ تھمایا اورکہا کہ درخت پر چڑھ کر ان دونوں کو اتار لائے۔ لڑکا درخت پر چڑھا اور سرخ رنگ والا طوطا اتار لایا۔
'' دوسرا کیوں نہیں اتارا ؟ ‘‘ اس شخص نے پوچھا۔
'' وہ ابھی کچا ہے!‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
٭... ایک صاحب نے دو طوطے پال رکھے تھے جو پنجرے میں زیادہ تر سجدہ ریزی ہی کی حالت میں رہتے۔ ایک روز ان کا ایک دوست ملنے کے لیے آیا تو موصوف نے ان طوطوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ اتنے نیک ہیں کہ ہر وقت عبادت ہی میں مشغول رہتے ہیں۔ دوست نے یہ سن کر کہا، اچھا، میں کل آئوں گا۔ دوسرے دن ان کا دوست اپنے ساتھ ایک طوطی لے کر آیا اور اسے دروازہ کھول کرپنجرے میں ڈال دیا، جسے دیکھ کر ایک طوطا اپنے سجدہ ریز ساتھی سے مخاطب ہوکر بولا،
'' بھائی جی، اٹھیے! عبادت کی دشمن آگئی ہے !‘‘
٭...ایک شخص طوطے کی خریداری کے لیے مطلوبہ دکان پر پہنچا جہاں سب سے زیادہ باتیں کرنے والے طوطے کی نیلامی ہورہی تھی۔ مالک سو روپے کی بولی دیتا تو پیچھے سے آواز آتی ''دو سو‘‘ 
اسی طرح بولی چڑھتے چڑھتے جب ایک ہزار کو پھلانگ گئی تو بولی تمام ہوئی اور خریدار نے قیمت ادا کرکے پوچھا۔
'' سنا ہے یہ باتیں بہت کرتا ہے!‘‘
'' تمہارا کیا خیال ہے ، پیچھے سے بولی کو بڑھاوا کون دے رہا تھا‘‘ دکاندار بولا۔
پسندیدہ اشعار
طوطیا من موہتیا توں اوس نگر نہ جا
اوس نگر دے لوک برے تے لیندے پھاہیاں پا
تمہاری رٹ لگانے والے اکثر
ہمارا رزق طوطے کھا رہے ہیں
طوطا ہوں میں طوطا ہوں
ہرے رنگ کا ہوتا ہوں
ایڈیٹر کی ڈاک
محترمی! یہ جو آپ لوگوں نے طوطا میاں کی کہانی والا محاورہ بنا رکھا ہے ہمیں اس پر سخت ا عتراض ہے کہ یہ کم بخت تو ہمیں لفٹ ہی نہیں کراتیں۔ چنانچہ ہم نے بھی اپنی طوطیوں پر اکتفا کرنا سیکھ لیا ہے۔ اس لیے آپ سے التجا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس محاورے کو ترک کرکے ہماری عزت نفس کو محفوظ بنایا جائے۔ نیز صفحہ بہت پسند آیا۔البتہ طوطا چشمی والی ترکیب ہمیں سخت ناپسند ہے۔ براہ کرم اسے بھی ترک کرکے ہماری حق رسی اور تلافی کا اہتمام کیاجائے بلکہ آپ کا ماٹو تو یہ ہونا چاہیے ع
طوطوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
اس کے علاوہ طوطا رنگ بھی ایک نہایت واہیات ترکیب ہے جس نے ہمیں یک رنگ بناکر رکھ دیاہے، حالانکہ اب تو ہم سرخ، نیلے ، سفید اور ملٹی کلرز میں بھی دستیاب ہیں۔
والسلام :ایک غیرت مند طوطا
آج کا مقطع
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں