مارشل لا قبول نہیں، ملک میں جمہوریت
کا حامی ہوں...طاہرالقادری
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ '' مارشل لا قبول نہیں، ملک میں جمہوریت کا حامی ہوں ‘‘ لیکن میرے مارشل لا کے قبول نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ جب وہ آتا ہے تو سب کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے جبکہ مارشل لا بھی جب آتا ہے تو سب سے پہلے جمہوریت ہی کو بحال کرنے میں لگ جاتا ہے ،اس لیے میری طرح وہ بھی جمہوریت ہی کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' شریف برادران اقتدار میں رہے تو ملکی بقا خطرے میں ہے‘‘ جبکہ میں اس شور شرابے سے اسے خطرے سے نکالنے کی کوشش کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ '' جنہیں مذاکرات کرنا ہیں انقلاب مارچ میں شریک عوام سے کریں ‘‘ چنانچہ عوام کے ہر فرد سے مذاکرات میں کچھ وقت تو لگے گا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ سہج پکے، سو میٹھا ہو،تو اس سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے‘‘ اور ہم سڑک پر ہی اس کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' انقلاب کے بغیر واپس نہیں جائیں گے ‘‘ بلکہ شاید انقلاب کے بعد بھی یہیں بیٹھے رہیں۔ آپ اگلے روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے۔
دو دن کے بعد کارکنوں کو نہیں
روک سکوں گا... عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے
کہ '' دو دن کے بعد کارکنوں کو نہیں روک سکوں گا‘‘ کیونکہ یہ بھی میری ہمت اور ان کا صبر ہے کہ جو وہ اب تک رکے ہوئے ہیں ورنہ کب کے واپس جاچکے ہوتے ،اس لیے میں انہیں دو دن سے زیادہ نہیں روک سکتا کہ آخر ہر کسی نے واپس گھر بھی جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' نوازشریف 48گھنٹوں میں استعفیٰ دیں ‘‘ یعنی اگر وہ استعفیٰ دینا چاہیں تو 48گھنٹوں میں یہ کام کرسکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد بیشک نہ دیں حالانکہ انہیں اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ '' جمہوریت پسند ہوں، نہیں چاہتا کہ انتشار کی وجہ سے فوج آئے ‘‘ کیونکہ اس نے اب تک نہ آکر ہی اتنا مایوس کردیا ہے کہ شاید اب کسی انتشار کی وجہ سے بھی نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ '' عوام پانی، بجلی اور گیس کے بل نہ دیں ‘‘ اور آرام سے سارے کنکشن کٹوا دیں اور بالکل ہلکے پھلکے ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف خدا کے واسطے جان چھوڑدیں‘‘کیونکہ دھرنے وغیرہ سے تو ایسا نہیں ہوسکا ،اس لیے اب خدا کا واسطہ دینا ہی باقی رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب کررہے تھے۔
اب بھی وقت ہے عمران جمہوریت کی طرف لوٹ آئیں...شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ '' اب بھی وقت ہے، عمران جمہوریت کی طرف لوٹ آئیں‘‘ اگرچہ یہ بادشاہت ہی سہی، لیکن کم از کم اوپر سے تو جمہوریت ہی لگتی ہے کیونکہ بادشاہت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیاگیا بلکہ رویہ جمہوری ہونے کے بجائے شاہانہ ہے کیونکہ اب ملک عزیز میں جمہوریت کا صرف یہی برانڈ قابل عمل رہ گیا ہے اور رعایا کا بھی اپنے بادشاہ کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''فیصلوں کے تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں‘‘ اور کابینہ اور پارلیمنٹ وغیرہ سب دیگر کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور ہر فرمان انہیں کی طرف سے ہی جاری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' سیاستدان کا اوڑھنا بچھونا سیاست اور عوام کی طاقت ہونی چاہیے ‘‘ چنانچہ ہم نے سیاست کسی نہ کسی طرح خرید کر اوڑھی بھی ہوئی ہے اور بچھائی بھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘‘ اگرچہ مذاکرات کے بعد آپریشن کی طرف ہی آنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ن لیگ کے وفود سے ملاقات کررہے تھے۔
اپوزیشن جماعتیں نوازشریف کے
استعفے پر متفق ہیں ...چودھری شجاعت
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ '' اپوزیشن جماعتیں نوازشریف کے استعفے پر متفق ہیں ‘‘ اس لیے اگر اب بھی وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو نہایت افسوس کی بات ہے کیونکہ ہمارے علاوہ تحریک انصاف بھی اس پر متفق ہے بلکہ شیخ رشید کی پارٹی بھی، اگرچہ کارکن نہ ہونے پر عمران خان نے انہیں کنٹینر سے اتار دیا تھا اور وہ اس وقت سے کارکنوں کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' حالات خراب ہونے کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی‘‘ اگرچہ ہم بھی بساط بھر عاجزانہ کوششوں میں مصروف ہیں جو کامیاب ہوتی نظرنہیں آتیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ‘‘ اور یہ بات میں نہایت مایوسی کے عالم میں کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ '' انقلاب اور آزادی مارچ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ‘‘ کیونکہ اگر پیچھے ہٹے تو یہ شرکا ء ہی ہمیں مار ڈالیں گے جنہیں کھینچ تان کر یہاں لائے ہیں اور جان بچانا بہرحال فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' حکومت کو حالات سنبھالنے کا یہ آخری موقع ملا ہے‘‘ کہ ہماری طرف کچھ بندے بھیج کر معاملہ ختم کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
عمران خان مسلم لیگ ن میں
شامل ہوجائیں... رانا ثنا اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب راناثنا اللہ نے کہا ہے کہ '' عمران خان مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائیں ‘‘ کیونکہ اس کے زعما کے خلاف پرچہ وغیرہ درج ہوچکا ہے، اور آنے والے دن کوئی خاص اچھے دکھائی نہیں دیتے ،اس لیے خالی جگہوں کو پر کرنے کے لیے کافی گنجائش موجود ہے جبکہ میری جگہ آنے والے رانا مشہود صاحب کا بھی مستقبل کافی مشکوک نظر آتا ہے یعنی ہور چوپو ! انہوں نے کہا کہ '' وہ دس لاکھ افراد اکٹھا کریں تو نوازشریف مستعفی ہوجائیں گے ‘‘ بلکہ اس میں مزید رعایت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ مجھے خواہ مخواہ فارغ کرکے بھی ان لوگوں نے کچھ اچھا نہیں کیا کیونکہ سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار میں اکیلا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ '' عمران خان کے مطالبات غیر آئینی ہیں ‘‘ اگرچہ میری چھٹی بھی غیر آئینی طور پر ہی کرائی گئی تھی لیکن افسوس کہ اس پر کسی طرف سے کوئی احتجاج وغیرہ نہیں کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ '' غیر آئینی مطالبات سے گریز کرنا چاہیے ‘‘ کیونکہ آئینی صورتحال ملک میں پہلے ہی کافی مخدوش ہوچکی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔
آج کا مطلع
محبت ہے مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں