"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

استعفیٰ دو ورنہ وزیراعظم ہائوس میں
داخل ہو جائیں گے... عمران خان 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''نوازشریف استعفیٰ دیں ورنہ وزیراعظم ہائوس میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘ اورمیں سیدھا وزیراعظم کی کرسی پر جا کر بیٹھ جائوں گا کیونکہ وزیراعظم وہی ہوتا ہے جو متعلقہ کرسی پر بیٹھا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم نے بہت انتظار کروایا‘‘ کیونکہ اتنا انتظار تو محبوبائیں بھی نہیں کراتیں جس کا مجھے پہلے ہی کافی تلخ تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''استعفیٰ لینے ہی نہیں‘ احتساب کرنے بھی آرہا ہوں‘‘ بس میری مذکورہ کرسی پر بیٹھنے کی دیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم پارلیمنٹ کے اندر نہیں بلکہ باہر بیٹھ کر احتجاج کریں گے‘‘ ماسوائے اس کے کہ وزیراعظم بن کر ہی دکھانا پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ریڈ زون کو گرین زون بنا دیں گے‘‘ بہرحال اسے ریڈ زون نہیں رہنے دیں گے کیونکہ بول وبرازکا ایک اپنا رنگ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریڈ زون بھی پاکستان کا علاقہ ہے‘‘ اور اتفاق سے میں بھی پاکستان ہی کا ہوں؛البتہ قادری صاحب ذرا کینیڈا سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اگلے دن پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
شرکاء انقلاب لائے بغیر واپس
نہیں جائیں گے... طاہر القادری 
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ''شرکاء انقلاب لائے بغیر واپس نہیں جائیں گے‘‘ چنانچہ فی الحال یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اسے کہاں کہاں سے لایا جا سکتا ہے‘ اور یہ کہ وہ آنے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں کیونکہ کسی کو زبردستی نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نظام تبدیل کرنے آئے ہیں‘‘ اسی لیے ہم خود کو بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور ریڈ زون کراس نہ کرنے کا وعدہ کر کے اسے مجبوراً کراس بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کی بشارت ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت گھر جائے، اسمبلیاں تحلیل ہوں اور قومی حکومت قائم کی جائے‘‘ کیونکہ جس طرح باقی کام ہو گیا حکومت بھی قائم ہو جائے گی، جس کے بعد ع 
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے 
انہوں نے کہا کہ ''میرے اور عمران خان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں‘‘ کیونکہ اختلاف اگر ہوا تو نمبر ون ہونے پر ہوگا۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
دھرنے والے چاہتے ہیں سیاست کے لیے
دوچار لاشیں مل جائیں... پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''دھرنے والے چاہتے ہیں کہ سیاست کے لیے دوچار لاشیں مل جائیں‘‘ حالانکہ ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14 لاشیں ہی کافی تھیں اور انہیں ان پر اکتفا کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ لالچ اچھا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کسی صورت طاقت کا استعمال نہیں کرے گی‘‘ کیونکہ اس ضمن میں ہمارا ہاتھ پہلے ہی کافی تنگ ہے جبکہ پولیس خود بھی ایسا نہیں کرے گی اور تحریری حکم کے بغیر گولی چلائے گی نہ لاٹھی اور فوج نے ویسے ہی کہہ دیا ہے کہ معاملات مذاکرات سے حل کیے جائیں‘ اس لیے سارا معاملہ بے حد تشویشناک ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تمام ادارے آئینی حدود میں کام کر رہے ہیں‘‘ حتیٰ کہ حکومت نے بھی دل پر جبر کرتے ہوئے آئینی حدود میں کام کرنا شروع کردیا ہے جس میں اسے خاصی مشکلات پیش آ رہی ہیں کہ حکومت کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ''دنیا نیوز‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
فوج چھوٹی چھوٹی باتوں پر اقتدار 
پر قبضہ نہیں کرے گی... فضل الرحمن 
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''فوج چھوٹی چھوٹی باتوں پر اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی‘‘ اس لیے اس نیک کام کے لیے اسے ذرا بڑی بڑی باتیں مہیا کی جانی چاہئیں جس کے بہت سے صدری نسخے خاکسارکو معلوم ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کی سوچ بچگانہ ہے‘‘ جسے بلوغت آمیزکرنے کے لیے اسے خاکسار کی شاگردی اختیار کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کی بقا پر متفق ہیں‘‘ کیونکہ اسی کی وجہ سے ماشاء اللہ سب کا بصرہ لگا ہوا ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ ''جمہوریت کو خطرہ نہیں‘‘ کیونکہ خطرے کے لیے جمہوریت کا ہونا بھی ضروری ہے جبکہ موجودہ نظام تو حصولِ روزگار کا نظام ہے جس میں جملہ حضرات منتخب ہو کر دانہ دُنکا چُگتے اور موسم برسات کے لیے اکٹھا کرتے ہیں کہ حصولِ رزق ہر شخص پر واجب ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
لڑائی کی بجائے سمجھداری سے 
معاملات کو سلجھایا جائے... منظور وٹو 
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''لڑائی کی بجائے سمجھداری سے معاملات کو سلجھایا جائے‘‘ جس طرح ہم نے اپنے دور میں سارا کام سمجھداری سے ہی کر لیا تھا اور لڑائی جھگڑے کا موقع ہی نہیں آنے دیا تھا کیونکہ سب اپنے اپنے حصے پر مطمئن تھے اور موجیں مان رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت سیاسی قائدین کے مشوروں پر سنجیدگی سے غور کرے‘‘ جبکہ بڑے میاں صاحب کا کام ہی غور کرنا ہے جیسا کہ ہمارے دور میں یہ فریضہ خاکسار ادا کیا کرتا تھا جس کا کارکنان نے غلط مطلب لیا اور ہر جگہ میری گردن ناپنا شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ وقت ایسا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی وحدت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘‘ اور خاکسار کا بھی خیال رکھنا چاہیے جسے دیگر معززین سمیت نیب والے خواہ مخواہ پریشان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ 
آج کا مطلع 
بہت کچھ ہو تو سکتا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہو گا 
مجھے معلوم ہے اس پر اثر کچھ بھی نہیں ہو گا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں