"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ اشتہار اور اظہر عباس

مسئلے کے سیاسی حل کے لیے آخری حد
تک جائیں گے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''مسئلے کے سیاسی حل کے لیے آخری حد تک جائیں گے‘‘ حالانکہ یہ سیاسی مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ معصوم سی بادشاہت کا معاملہ ہے جبکہ سیاست نے اس ملک کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ کا گھیرائو افسوسناک ہے‘‘ اور اگر صدر کی سائیڈ والا دروازہ دستیاب نہ ہوتا تو مستقبل میں سارے کام اندر بیٹھ کر ہی سرانجام دینا پڑتے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے میں شامل خواتین اور بچوں کا تحفظ چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ مرد حضرات کو اندر وغیرہ کرنے سے معاملہ حل ہو جائے گا جس کے لیے پولیس طوعاً و کرہاً راضی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاک سیکرٹریٹ میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ اگرچہ باقی سارے کام یہ حضرات ہماری اجازت کے بغیر ہی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جب پوری پارلیمنٹ اور جمہوری قوتوں کا اعتماد حاصل ہے تو استعفیٰ کیوں دوں‘‘ بیشک پارلیمنٹ بھی میری ہی طرح منتخب ہو کر آئی ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزراء سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
اسلام آباد پر یلغار کرنے والے دراصل جمہوریت کا انہدام چاہتے ہیں... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد پر یلغار کرنے والے دراصل جمہوریت کا انہدام چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ یہ خانگی اور بے ضرر سی جمہوریت ہے اور کسی کا کچھ نہیں لیتی‘ آخر ہم پندرہ بیس افراد نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''محب وطن پاکستانی پارلیمنٹ پر حملے کا اعلان نہیں کر سکتا‘‘ بیشک یہ جس طرح بھی وجود میں آئی ہو کیونکہ پارلیمنٹ تو پارلیمنٹ ہی ہوتی ہے ،وہ پنکچروں سے آئی ہو یا ان کے بغیر۔ انہوں نے کہا کہ ''نام نہاد احتجاج کا ایک ایک لمحہ ملک کو کروڑوں میں پڑ رہا ہے‘‘ حالانکہ ہم خود ہی ملک کو اتنے مہنگے پڑ رہے ہیں کہ مزید نقصان کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''افواج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تاریخی کردار ادا کر رہی ہیں‘‘ اور امید ہے کہ اسی طرح دھرنوں وغیرہ کے خاتمے کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کریں گی ۔ انہوں نے کہا کہ ''شاہ محمود قریشی کے گھر کے باہر واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے‘‘ اگرچہ یہ واقعہ خاصی حد تک گھر کے اندر بھی ہوا؛ تاہم اسی کو غنیمت سمجھا جائے جو میں نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگ کے مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
حکومت مظاہرین کے خلاف تشدد کی 
پالیسی نہیں اپنائے گی... پرویز رشید 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''حکومت مظاہرین کے خلاف تشدد کی پالیسی نہیں اپنائے گی‘‘ کیونکہ فی الحال تو خطرہ یہی ہے کہ خود مظاہرین ہمارے خلاف تشدد کی پالیسی اپنانا نہ شروع کردیں کیونکہ اگر مہربانوں کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو اگلے روز پارلیمنٹ کے خلاف بھی تشدد کا مظاہرہ کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''شاہ محمود کے گھر پر حملے کی پرزور مذمت کرتا ہوں‘‘ اور اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ جس طرح عمران خان کے کارکن ان کے اختیار سے باہر ہو سکتے ہیں‘ ہمیں بھی اپنے گلو بٹوں پر کچھ زیادہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ساری پارٹی کی پالیسی نہیں‘‘ جبکہ باقی سارے کام‘ سانحہ ماڈل ٹائون سمیت پارٹی پالیسی کے مطابق ہی سرانجام پا رہے ہیں کیونکہ ہم حکومت کرنے آئے ہیں‘ تربوز بیچنے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف سے مذاکرات جاری ہیں‘‘ اگرچہ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا‘ لیکن آخر اتمامِ حُجت بھی کوئی چیز ہے‘ نیز ہر طرف سے بھی مذاکرات ہی کی تاکید کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
تلاشِ گمشدہ 
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ اگر انہیں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بارے میں کوئی معلومات ہوں تو براہ کرم پہلی فرصت میں حکومت کو مطلع کریں جو ایک دو روز سے حسبِ معمول پھر منظر سے غائب ہیں اور ان کی یہ گمشدگی حکومت کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے۔ اگر صاحبِ موصوف یہ اشتہار پڑھ کر خود واپس آ جائیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ زیادہ خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں کچھ نہ کہیں کیونکہ وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے حکومت صرف تصور ہی کر سکتی ہے۔ اتہ پتہ بتانے والے کو کرایہ آمدورفت ادا کیا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس کچھ اور دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ 
المشتہر:حکامِ امور داخلہ
اظہر عباس 
''اسی دشت میں‘‘ جدید لب و لہجے کے شاعر اظہر عباس کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جو شاہین عباس کے شہر شیخوپورہ میں مقیم ہیں۔ یہ مجموعہ انحراف پبلی کیشنز لاہور‘ اسلام آباد نے چھاپا ہے جس پر قیمت درج نہیں ہے۔ اس کے کچھ اشعار دیکھیے: 
اور بڑھ جائے گی تنہائی تجھے کیا معلوم 
ایسی تنہائی میں دیوار کی جانب مت دیکھ 
میں باہر سے بھلا کب ٹوٹتا تھا 
مجھے اندر سے توڑا جا رہا ہے 
اکیلا میں ہی نہیں جا رہا ہوں بستی سے 
یہ روشنی بھی مرے ساتھ جانے والی ہے 
چلو اچھا ہوا تم لوٹ آئے ہو 
مرا یوں بھی گزارا ہونے والا تھا 
ابھی تو کوئی بھی نام و نشاں نہیں اس کا 
ہمیں جو موج کنارے لگانے والی ہے 
کوئی دشمن بھی مرنے والا نہیں 
جس طرح وار کر رہا ہوں میں 
اس جدائی کا ہے سبب کچھ اور 
لوگ تو درمیاں تھے پہلے بھی 
آج کا مقطع 
ظفرؔ، کرنا پڑے گا اُس کو پہلی بار ہی قائل 
نہ ہو پایا تو پھر بارِ دگر کچھ بھی نہیں ہو گا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں