"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور منیر نیازی پر ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی کتاب

ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہی ملک دشمن سرگرم ہو جاتے ہیں... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہی ملک دشمن سرگرم ہو جاتے ہیں‘‘ حالانکہ ہماری ان سے صرف داڑھ ہی گرم ہوتی ہے‘ اس لیے میگا قسم کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں جبکہ عوام کی صحت‘ تعلیم اور روزگار وغیرہ کا معاملہ ہم نے اللہ میاں پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ اسی کا کام ہے جس میں مداخلت کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے جب کہ ملک دشمنوں کی ترقی پر ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچائیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملک سب کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ''سیاسی دکانیں چمکانے والے متاثرین کی مدد کے لیے باہر نکلیں‘‘ کیونکہ اس طرح تبدیلیٔ آب و ہوا بھی خاصی حد تک ہو جاتی ہے اور اسی لیے سیلاب وغیرہ کی آمد کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے ،ورنہ اسے خاصی حد تک روکا یا کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز رائے ونڈ میں معروف نعت خواں عبدالرحمن جامی سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
عمران اور قادری وہ کام کر رہے ہیں جو ملک دشمنوں نے بھی نہیں کیا... شہبازشریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عمران اور قادری وہ کام کر رہے ہیں جو ملک دشمنوں نے بھی نہیں کیا‘ ‘ حتیٰ کہ ہم بھی اس سلسلے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ ملک سے پیسہ اکٹھا کر کے باہر لے جانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ہماری مشکل پسند طبیعت نے وہ بھی کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ''اناپرست عناصر مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی بجائے حکومتی کاموں میں روڑے اٹکا رہے ہیں‘‘ حالانکہ ہمارا بھی یہ اصل کام نہیں ہے اور جو ہمارا کام ہے‘ اس میں کوئی روڑہ اٹکا ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم حکومت بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنا کام بھی‘ جبکہ حکومت میں ہوں تو اس کام پر مزید بہار آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں‘‘ جس میں ہمارا ادنیٰ حصہ بھی شامل ہے تاکہ ان مصیبت زدگان کی مدد کا سنہری موقع حاصل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے‘‘ یعنی وہ وسائل جو حکمرانوں کی اپنی مدد سے بچ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کی ایک خبر پر نوٹس لیتے ہوئے بیان جاری کر رہے تھے۔ 
بعض عناصر فوج کو سیاست میں 
گھسیٹ رہے ہیں... خواجہ آصف 
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''بعض عناصر فوج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے تو فوج کو ذرا سہولت بہم پہنچانے کی دعوت دی تھی اور وزیراعظم پارلیمنٹ کا موڈ دیکھ کر اس سے بھی مُکر گئے تھے لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک غیر ضروری وضاحت کر کے سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا اور ہمیں بار بار اس کی وضاحتیں کرنا پڑیں کیونکہ ہمیں اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ دھرنے والوں کا کیا کیا جائے‘ حتیٰ کہ وزیراعظم صاحب کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا حالانکہ ان کی سمجھ اور فہم و فراست کے ڈنکے دنیا بھر میں بج چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ''حکومت اور فوج میں اختلاف نہیں‘‘ کیونکہ یہ واحد ملک ہے جس میں فوج اور حکومت میں اختلاف کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے اور فوج کی یہ مہربانی ہے کہ حکومت سے نہ صرف اختلاف نہ رکھے بلکہ اس کی وضاحت بھی وقتاً فوقتاً کرتی رہے اور ہر وقت حکومت کا خون خشک نہ ہوتا رہے جو کہ آج کل بھی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ 
سانحہ ماڈل ٹائون نہ ہوتا تو یہ سنگین صورتحال پیدا نہ ہوتی... منظور وٹو 
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ''اگر سانحہ ماڈل ٹائون نہ ہوتا تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی‘ جیسا کہ اسی طرح اگر ہم نے اپنے دور میں اپنے علاوہ عوام کے لیے بھی کچھ کیا ہوتا تو حالیہ انتخابات میں عوام ہمارے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے۔ اگرچہ اس میں غلطی ہماری ہی تھی جو ہم نے روایتی افہام و تفہیم سے کام لے کر پنجاب کے انتخابی انتظامات نون لیگ کے سپرد کر دیے اور خود سندھ پر اکتفا کر لیا‘ چنانچہ پنجاب میں ہمارا صفایا ہو گیا اور سندھ میں نوازلیگ کا۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی جماعتیں اپنے مؤقف میں لچک پیدا کریں‘‘ جس طرح ہم نے اور نوازلیگ نے ایک دوسرے کے بارے میں اپنے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کر رکھی ہے کیونکہ مقدمات ہمارے خلاف بھی ہیں اور ان کے خلاف بھی‘ اور امید ہے کہ اس سلسلے میں بھی لچک ہی لچک باقی رہ جائے گی اور مقدمات حسبِ معمول اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں‘‘ اور یہ خالی خولی مذمت ہی ہے اس لیے حکومت کو اس سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ 
منیر نیازی... شخص اور شاعر 
منیر نیازی ایک بانکا اور طرحدار شاعر تھا اور ایک پورا عہد اس کے نام نامی سے منسوب ہے۔ اس کے فن اور شخصیت پر کام کی رفتار افسوسناک حد تک سست چلی آ رہی ہے‘ تاہم ڈاکٹر سمیرا اعجاز نے یہ کتاب لکھ کر اس کی کچھ تلافی کی کوشش کی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر اور ہمارے دوست ڈاکٹر سید عامر سہیل اس کے پسِ سرورق پر لکھتے ہیں ''کسی بھی محقق اور نقاد کے لیے ایک بڑی تخلیقی شخصیت کو ایک کُلیت میں دیکھنا اوراس کے ممکنہ شخصی اور تخلیقی رویوں کی باز آفرینی کرنا یقینا مشکل اور کٹھن کام ہے؛ تاہم جو محقق اپنے تنقیدی وجدان اور تحقیقی بصیرت سے کسی بڑے شاعر کی تخلیقی کائنات کا حصہ بن کر اس کی شاعری میں Liveکرتا ہے ،وہ نہایت مؤثر اور ثمرآور نتائج تک پہنچ کر نہ صرف تخلیقی سحر سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ دیگر پڑھنے والوں کو بھی اس سرخوشی اور سرشاری میں اپنا شریک بنا لیتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی یہ کتاب منیر نیازی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے نہایت اہم تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ 
اس کے علاوہ اندرونی فلیپ پر فیض احمد فیض کے منیر نیازی کی کتاب ''ساعتِ سیّار‘‘ پر لکھے گئے دیباچے سے بھی ایک اقتباس شائع کیا گیا ہے۔ فاضل مصنفہ نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے یعنی منیر نیازی، سوانحی حقائق و شخصی وظائف‘ ادبی آثار کا تحقیقی و تنقیدی تناظر‘ منیر نیازی کی نظم کا فکری و تشکیلی نظام‘ منیر نیازی کی غزل کی شعریات اور منیر نیازی کے گیتوں کی فکری و فنی دیو مالا‘ جن پر کھل کر اور معلومات افزا بحث کی گئی ہے اور ادب کے طالب علموں کے لیے اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم پروف کی اغلاط کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور منیر نیازی کے نقل کردہ اشعار میں سے کم و بیش 50 غلط درج کیے گئے ہیں۔ آخر میں اغلاط نامہ کا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ اسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا ہے اور قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔ 
آج کا مطلع 
ہمارے دل پہ جو تاخیر سے لگے ہوئے ہیں 
یہ زخم بھی تری شمشیر سے لگے ہوئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں