حکومت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے پُرعزم ہے...صدر ممنون حسین
صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ '' حکومت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے پُرعزم ہے ‘‘ جو حکمرانوں کے اپنے معیار زندگی سے ظاہر ہے جس کی بلندی کو سیڑھی لگاکر ہی دیکھا جاسکتا ہے، لہٰذا حکمران اگر چند برسوں میں اپنا معیار زندگی اس قدر بلند کرسکتے ہیں تو عوام کو بھی ان سے یہی امید رکھنی چاہیے، اگرچہ یہ معیارزندگی عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے بھیج کر ہی بلند کیاگیا ہے کیونکہ معیار زندگی کی بلندی معیار زندگی کی بلندی ہی ہوتی ہے، وہ حکمرانوں کی ہو یا عوام کی، اس لیے عوام کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان حکمرانوں کا معیار زندگی اقتدار کے دنوں سے کن بلندیوں کو چھونے لگا، اس لیے عوام کو بھی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان کا معیار زندگی اپنے آپ بلند ہونا شروع ہوجائے کیونکہ اقتدار کے دنوں میں معیار زندگی کو آٹو میٹک گیئر لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' معیشت کی بحالی میں ترقیاتی اداروں کی معاونت مدد گار ہوگی‘‘ کیونکہ بیرون ملک ترقی میں بھی ان کا ایک کردار ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ایوان صدر میں ایشین ڈویلپمنٹ کے صدر سے ملاقات کررہے تھے۔
شمالی وزیرستان کو جلد کلیئر کراکر امن یقینی بنایا جائے گا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ '' شمالی وزیرستان
کو جلد کلیئر کراکر امن یقینی بنایا جائے گا‘‘ بلکہ یہ تو چھ ماہ پہلے ہی کلیئر ہوجاتا اگر بیچ میں مذاکرات شروع نہ کر دیے جاتے۔ توقع یہ تھی کہ مذاکرات میں معاملات طے ہو جائیں گے لیکن ہماری بات ہی نہ سنی گئی۔ انہوں نے کہا کہ '' حکومت کی پوری کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو جلد از جلد ان کے گھروں میں واپس بھیجا جائے ‘‘ البتہ دھرنا دینے والوں کو چاہیے کہ اپنے گھروں کو خود ہی براہ کرم واپس چلے جائیں کیونکہ انہیں واپس بھیجنا حکومت کے اختیار میں نہیں ہے اور پولیس بھی حکومت کا کہا ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کیسا زمانہ آگیا ہے! آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
عمران خان کو مرنے والوں کا خیال ہے نہ سیلاب میں برباد ہونے والوں کا ... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ '' عمران خان کو مرنے والوں کا خیال ہے نہ سیلاب میں برباد ہونے والوں کا ‘‘ حالانکہ ہمیں سانحہ ماڈل ٹائون میں مرنے والوں کا اتنا خیال ہے کہ اسی سوگ میں ایک عرصے تک اس کی ایف آئی آر کٹوانے کا خیال بھی نہ آیا جبکہ پولیس والوں کی طرف سے ایف آئی آر کٹوا دی گئی تھی اور اصولی طور پر وہی کافی تھی کیونکہ پولیس ایک معتبر ادارہ ہے اور اسی کے بل بوتے پر حکومت کی گاڑی بھی چل رہی ہے جبکہ سیلاب میں ڈوبنے والوں کا منظر ہر روز دیکھتے ہیں جن میں کچھ دھرنے والے بھی موجود ہوتے ہیں جو ہمیں دیکھتے ہی '' گو نوازگو ‘‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں اور خاکسار کو بالکل فراموش کر رکھا ہے جبکہ سیلاب کو لانے میں اس ناچیز کی بھی پوری پوری مساعی جمیلہ شامل ہیں، تاہم بند وغیرہ توڑ کر بعض محب وطن حضرات کی ملیں اور جاگیریں وغیرہ ڈوبنے سے بچالی گئی ہیں جو کہ ملکی مفاد کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے کہا کہ '' دیہی علاقے کے بند توڑنے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے‘‘ اور اس کا نتیجہ بھی انشاء اللہ وہی نکلے گا جو ایسی تحقیقات کا ہمیشہ نکلا کرتا ہے۔ اس لیے خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز ضلع جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کررہے تھے۔
کتابی سلسلہ عالمی رنگِ ادب
یہ رسالہ کراچی سے ڈاکٹر اختر ہاشمی اور شاعر علی شاعر کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جس میں حسب معمول کم و بیش ہر صنفِ ادب سے متعلق تحریریں شامل ہوتی ہیں اور جن میں تبصراتی و شخصی مضامین نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاعری ہے، انٹرویو اور افسانے۔ اس رسالے کا ایک اپنا ہی انداز اور معیار ہے کہ کراچی کے دیگر ایسے رسائل میں لکھنے والوں کی شمولیت ماسوائے فہمیدہ ریاض کم کم ہی نظر آتی ہے۔ رپورٹس میں مجید امجد صدی کے حوالے سے اورینئٹل کالج میں منعقد ہونے والے سیمینار کی روداد بظور خاص شامل ہے۔ 400صفحات پر محیط اس جریدے کی قیمت 400روپے رکھی گئی ہے۔
ماہنامہ الحمرا
لاہور سے یہ رسالہ مولانا حامد علی خان نے جاری کیا تھا جسے اب شاہد علی خان ہر ماہ باقاعدگی سے شائع کررہے ہیں جس میں ملک بھر کے معتبر لکھنے والوں کی نگارشات شامل ہوتی ہیں مثلاً جسٹس (ر) جاوید اقبال ، مستنصر حسین تارڑ، بشریٰ رحمان ، انور سدید، ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، سلمیٰ اعوان اور بھارت سے مشرف عالم ذوقی کے مضامین اور مسعود مفتی ، اسلم کمال کی تحریریں بطور خاص شامل ہیں۔ حصہ شاعری مختصر اور واجبی ہے اور جس میں مشکور حسین یاد، اسلم انصاری، جمیل یوسف ، امجد اسلام امجد، خواجہ محمد زکریا و دیگران اور کتابوں پر تبصرے ، تین افسانے ہیں اور مستنصر حسین تارڑ اور جمیل یوسف کے رپورتاژ اور سفرنامے ، اس میں قارئین کے خطوط کا حصہ کافی بابرکت ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض مکاتیب باقاعدہ مضمون کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں۔ قیمت 100روپے ہے۔
ماہنامہ ادب دوست
یہ رسالہ ہمارے دوست اے جی جوش نے لاہور سے کافی برس پہلے جاری کیا تھا جسے اب ان کے صاحبزادے خالد تاج سعید اقبال سعدی کی معاونت سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اشاعت میں باقاعدگی ماہنامہ الحمرا کی طرح اس کا بھی طرۂ امتیاز ہے۔ سرورق کے اندرون دونوں صفحوں میں اے جی جوش مرحوم کے ہمراہ مختلف شاعروں ، ادیبوں کے ہمراہ تصاویر التزام کے ساتھ شائع کرکے ان کی یاد کو تازہ کیاجاتا ہے۔ شمارہ ستمبر میں جن ادباء کی تحریریں شامل ہیں۔ ان میں ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر خورشید رضوی، ناصر زیدی ، حسن عسکری کاظمی، ناصر بشیر، کرامت بخاری، حسین احمد شیرازی اور رخشندہ نوید نمایاں ہیں۔'' پنجاب رنگ‘‘ کے عنوان کے تحت پنجابی تحریریں بھی التزام کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ اس کی قیمت فی پرچہ 20روپے ہے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، وہ یک بیک پانی کی رنگت ہی بدل جانی
سفینے اور ہو جانے، ستارہ اور ہو جانا