ڈاکٹر یونس جاوید کو ایک عمدہ فکشن رائٹر کے طور پر ہم سب جانتے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے مسلسل لکھ اور نوجوان ہمعصروں کو انسپائر بھی کر رہے ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں آوازیں (افسانے) میں ایک زندہ عورت ہوں (افسانے) ایک چہرہ یہ بھی ہے (خاکے) رگوں میں اندھیرا (ڈرامے) کنجری کا پل (ناول) اور حلقۂ ارباب ذوق (تنظیم‘ تحریک‘ نظریہ) شائع ہو کر ادبی حلقوں اور عام قارئین سے سندِ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ کہانی کہنے کا اصل فن اسی راز میں پوشیدہ ہے کہ مصنف قاری کی دلچسپی کو اول تا آخر برقرار رکھے اور یونس جاوید اس فن سے بخوبی واقف ہیں۔ حال ہی میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کی صورت میں سرکاری طور پر بھی ان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
ان کا ایک ناول (ستونت سنگھ کا کالا دن) اور افسانوں کا مجموعہ ''ربا سچیا رب قدیر‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئے ہیں۔ ناول سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا۔ قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ نسبتاً بڑی تقطیع میں شائع کیا گیا ہے جبکہ اس کا انتساب اس عہد کی ممتاز شاعرہ اور کالم نگار کشور ناہید کے نام ہے۔ پسِ سرورق پر بزرگ ادیب ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں:
ارتقائے فن کی اگلی منزل پر انہوں نے ''ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ لکھا جو برصغیر کی تاریخ میں اپنا تخلیقی سفر طے کرتا ہے اور زمانۂ حال تک کے واقعات کی عینی شہادت کے مترادف بن جاتا ہے۔ جب لاہور دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اور حکومت اس کے استیصال میں کوشاں ہے۔ بظاہر یہ اوتار سنگھ اور انور خاں کی کہانی ہے جو تقسیمِ ہند سے پہلے دوست تھے لیکن 1947ء میں سکھ لیڈر ماسٹر سردار تارا سنگھ کے تلوار لہرانے اور تخلیق پاکستان کی مخالفت کرنے پر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے۔ بیساکھی کے میلے پر نیلا گنبد کے چوک میں دونوں کی ملاقات اتفاقیہ تھی لیکن اب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ 1947ء کے فرقہ وارانہ فسادات کا پس منظر اپنی صداقت منکشف کر چکا تھا۔ اوتار سنگھ اور اس کا انجینئر بیٹا دل بہار سنگھ پچھتاوے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ یہ ناول اس پچھتاوے کو زمانۂ حال کے تناظر میں ابھارتا اور درد کی اس لہر کو ابھارتا ہے جو ان دو سکھ کرداروں کے باطن میں طوفان بپا کر رہی ہے لیکن ہولناک صورت اس وقت ابھرتی ہے جب اوتار سنگھ اور انور خاں کو القاعدہ کا دہشت گرد رکن قرار دے کر پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔ یونس جاوید نے ماضی کی کہانی ''روولٹ ایکٹ‘‘ اور ''جلیانوالہ باغ‘‘ کے واقعے کے تناظر میں پیش کی ہے لیکن زمانہ
حال کی شہادت اپنے مشاہدات سے اخذ کی ہے۔ اس مقام پر یہ ناول پاکستانی معاشرے کی تنقید بن جاتا ہے اور یونس جاوید ایک ایسے حقیقت نگار کی صورت میں سامنے آتے ہیں جو اپنے عہد کے معاشرتی زوال پر اپنا احتجاج رقم نہیں کر رہے بلکہ عدالت کے سامنے اپنا استغاثہ پیش کر رہے ہیں۔
یہ ناول تاریخی اور عصری صداقتوں کا آئینہ دار ہے۔ اسے یونس جاوید کے فن کا نمائندہ اور اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جانا چاہیے۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ دوست پبلی کیشنز اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 250 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا انتساب عطاالحق قاسمی کے نام ہے اس شعر کے ساتھ:
کسی کا کوaن ہوا یوں تو عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکہ ہے سب مگر پھر بھی
کتاب کے آغاز میں فیض احمد فیض کی پنجابی نظم ''ربا سچیا تو تے آکھیا سی‘‘ شامل کی گئی ہے۔ کتاب کا دیباچہ پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے تحریر کیا ہے جس کا ایک اقتباس پسِ سرورق شائع کیا گیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
''یونس جاوید کے افسانے انسان‘ سماج اور زندگی کے رنگا رنگ حوالوں سے معمور ہیں۔ انہوں نے حقیقت نگاری میں موجودہ اسلوبی افسوں کا اس مہارت سے استعمال کیا ہے کہ ان کے بیانیے معروضی حدوں سے نکل کر صورت حال کا سامنا کرنے والے کرداروں کے داخلی کوائف کو بھرپور انداز میں چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ''تیز ہوا کا شور‘‘، ''میں ایک زندہ عورت ہوں‘‘ اور اب ''ربا سچیا رب قدیر‘‘ تک یونس جاوید کے ڈکشن میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس کے تازہ ترین افسانوں میں میجک رئیالزم یا افسونی حقیقت نگاری کے پرتاثیر تیور منعکس ہوئے ہیں۔ بیانیوں میں داخلی کیفیات کی عکاسی معمولی کام نہیں ہے۔ اس کے لیے تجربے کی کٹھالی میں پگھل کر پانی ہونے کے ساتھ ساتھ زبان کے مکالماتی‘ خود کلاماتی‘ تفکراتی اور بیانیاتی امکانات کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔
یونس جاوید کے نئے افسانوں کے بیانیے کئی سطحوں پر خصوصاً جسمانی و جذباتی تصویر کشی میں ڈی ایچ لارنس کے فکشن میں موجود مسحور کن بیانیوں سے جا ملتے ہیں۔ انہوں نے افسانہ نویسی میں کہانی پن کا اس انداز سے خیال رکھا ہے کہ ان کی کہانیاں سپاٹ حقیقت نگاری سے ماورا ہو کر آفاقی صداقتوں کے دور میں داخل ہو جاتی ہیں‘‘۔
کتاب کا سرورق خالد رشید کا تیار کردہ ہے جبکہ کہانیوں کی تعداد سات ہے جو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تخلیق کی گئی ہیں:
محبت اس کو کہتے ہیں‘ یہی عورت ہے‘ ربا سچیا رب قدیر‘ زوال‘ عورت بھی کیا شے ہے‘ بے مہر بشارتیں اور ڈیوٹی از ڈیوٹی۔
جدید فکشن کے تیور دیکھنے کے لیے یہ دونوں کتابیں آپ کی لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں کہ عالمی تناظر میں بھی یہ شاعری نہیں‘ فکشن کا زمانہ ہے جبکہ مغرب میں بھی فکشن ہی کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
آج کا مقطع
میں اگر اس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو، ظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں