"ZIC" (space) message & send to 7575

واک پر واپسی اور بندر ہی بندر

جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں‘ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے جنید کے پاس کوئی ڈیڑھ دو ماہ کے لیے ماڈل ٹائون چلا گیا تھا کہ اس کے دونوں بچے میری کمزوری ہیں بلکہ سب سے بڑی کمزوری تو جنید صاحب خود ہیں کہ موصوف جس روز پیدا ہوئے تھے میں پہلی نظر میں ہی اسے دل دے بیٹھا تھا اور پھر چل سو چل۔ واپس تو آنا ہی تھا کہ آفتاب صاحب نے وارنٹ نکال رکھے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہاں واک کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں تھی اور سیرگاہ گھر سے کافی فاصلے پر تھی اور اِدھر محسوس یہ ہو رہا تھا کہ چلنے میں دِقت کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے کہ واک چُھوٹی ہوئی تھی۔ 
یہاں بھی پہلے تو بارش کئی روز تک واک میں مزاحم رہی اور اب کچھ روز سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے۔ واک سے فارغ ہو کر ٹیرس پر بیٹھ گیا ہوں۔ اگر قریبی دیہات کی مسجدوں سے ماشاء اللہ‘ جزاک اللہ اور الحمدللہ کی آوازیں آنے لگ جائیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج جمعرات ہے۔ گلاب کے پودے ایک بار پھر رنگ برنگ پھولوں سے لد گئے ہیں‘ حتیٰ کہ موتیا کے پودے سے موسم کا پہلا پھول دستیاب ہوا جو آفتاب کو پیش کردیا۔ پھولوں کو چھوڑیے‘ پرندوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ حیرت گم ہو جاتی ہے‘ حتیٰ کہ مچھلیوں اور سانپوں کی اتنی ورائٹی اللہ تعالیٰ نے پیدا کر رکھی ہے کہ اس کی صنعتکاری کی بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ سانپ ہوں یا مچھلیاں‘ ایسے ایسے رنگوں اور ڈیزائنوں میں خلق کی گئی ہیں اور پھر اس قدر کثرت سے کہ اس پر ایمان لانے کے لیے کافر بھی مجبور ہو جائے۔ اب نیچرلسٹ حضرات بتائیں کہ کیا یہ سب کچھ خودبخود ہی پیدا ہو گیا؟ 
پھر‘ ان سب سے مستزاد جناب ڈارون کی یہ تھیوری کہ ہمارے آبائو اجداد بندر تھے اور نظریۂ ارتقاء کے مطابق رفتہ رفتہ انسان بن گئے اور جس پر اکثر افراد ایمان بھی لائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضرت انسان پہلے بندر تھے اور بتدریج انسان بن گئے تو یہ ارتقاء رُک کیوں گیا ہے اور معلوم تاریخ یعنی سالہا سال سے کوئی بندر انسان کیوں نہیں بنا؟ اور ان کی وہی قسمیں چلی آ رہی ہیں مثلاً بندر‘ لنگور‘ گوریلا اور بن مانس۔ لطف یہ ہے کہ بن مانس کے طور پر بھی اسے جنگل کا انسان کہا گیا ہے‘ جو بجائے خود دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس کے باوجود کہ اس میں کچھ خواص انسانوں والے بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے بندر پال رکھا تھا۔ ایک روز وہ اس کی حرکات سے ایسا تنگ پڑا کہ اس نے اسے غسل خانے میں بند کردیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے یہ دیکھنے کے لیے کہ بندر کیا کر رہا ہے‘ دروازے کے چھوٹے سوراخ سے جھانکا تو اس نے دیکھا کہ
بندر بھی اسی سوراخ سے آنکھ لگائے کھڑا ہے! 
بندر ہمارے ہاں مختلف چیزوں کا استعارہ بن چکا ہے‘ مثلاً یہ ہوس کاری کا سمبل ہے جس سے مونکی بزنس کی ترکیب معرضِ وجود میں آئی۔ پھر یہ نقال کے طور پر بھی اپنی جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ ٹوپیوں کے سوداگر والا قصہ یقینا آپ نے بھی سن رکھا ہوگا۔ مزید یہ کہ بندر بانٹ کا محاورہ اسی کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے۔ پھر مداری کے ساتھ تماشا دکھاتے ہوئے یہ فراہمی ٔ روزگار کا استعارہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ ہنومان‘ جو بنیادی طور پر بندر ہی تھے‘ اپنی محیرالعقول طاقت اور استعداد کی بدولت بھی اپنی ایک خاصیت رکھتے ہیں کہ انہیں ایک جڑی بوٹی لانے کے لیے پہاڑ پر بھیجا گیا تو وہ پورا پہاڑ ہی اٹھا لائے۔ یا وہ ایک ہی چھلانگ میں لنکا پہنچ گئے وغیرہ وغیرہ۔ ہنومان کو سائنسی علوم وغیرہ میں مہارت کی وجہ سے عالم فاضل بھی گردانا گیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ڈارون کی ارتقاء کی تھیوری کا موجب بنا۔ ان خاصیتوں کی بنا پر ہمارے شعر و ادب میں بھی اس کا قابلِ ذکر کردار موجود ہے۔ میرے کلام میں بندروں کے حوالے سے جو اشعار آئے ہیں‘ ان میں کچھ حسب ذیل ہیں: 
سخن سرائی تماشہ ہے، شعر بندر ہے 
شکم کی مار ہے، شاعر نہیں، مچھندر ہے 
(آبِ رواں) 
آ تُو بھی دیکھ، تابِ تماشا تجھے بھی تھی 
بندر بندھا ہوا ہے، مچھندر کُھلا ہوا 
(گلافتاب) 
نانِ جویں پہ نام ہمارا بھی تھا، مگر 
تقسیم کے لیے کوئی بندر بٹھا دیا 
(سرِعام) 
بُوزنہ کس لیے ہوا وارد
تھے اگر بُوزنے سے پہلے ہی 
(اطراف)
گم ہونے لگے ہیں مرے اجداد کے آثار 
ٹوٹا ہوا رشتہ کوئی بندر سے نکالو 
(ترتیب) 
دم سی ایک نکل آتی ہے کبھی، ظفرؔ 
اور، یہ صورت بندر جیسی لگتی ہے 
(تقویم) 
مسخر کر لیا ہے اپنے آباء کی کشش نے 
سو، میں صد احتراماً بندروں میں آ رہا ہوں 
(تماشا) 
علاوہ ازیں ''جے ہنومان‘‘ نامی پورا مجموعۂ کلام بندروں کے حوالے سے ہے جس کے بارے میں گوپی چند نارنگ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ یہ اس صدی کی سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والی کتاب ہوگی۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ یہ کتاب ہمیں بار بار آئینہ دکھاتی اور شرمندہ کرتی ہے۔ اس کتاب کا انتساب اختر احسن کے نام ہے جو بھارت جاتے ہوئے ہنومان جی کی تصویر میرے لیے لائے تھے اور جو اس کتاب کے سرورق پر اپنی بہار دکھا رہی ہے! 
آج کا مقطع 
ظفرؔ، دیوار اٹھا رکھی تو ہے یہ درمیاں میں 
مگر دیوار میں بھی راستہ ہوتا ہے کوئی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں