کسی زمانے میں یہ نظم کہیں پڑھی تھی:
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو کرے ایم اے اگر پاس
تو فوراً دوں بیاہ لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دِقّت میں بن جائوں تری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
کسی صورت نہ ہو گا مجھ سے یہ کام
کہاں عاشق کہاں کالج کی بکواس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس
مجنوں عقلمند آدمی تھا، اس لیے '' گو مجنوں گو‘‘ کہنے سے پہلے ہی استعفیٰ دے کر بھاگ گیا۔ ہمارے وزیراعظم بھی عقلمندی کے لحاظ سے اگرچہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں، لیکن استعفیٰ دینے کی طرف ہرگز نہیں آرہے ، حالانکہ '' گو نواز گو ‘‘ کا نعرہ تقریباً ایک قومی سلوگن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور چیمبر آف کامرس، وفاقی وزراء اور حمزہ شہباز کے جلسوں تک میں یہی نعرہ سنائی دینے لگا ہے، حتیٰ کہ '' ہے جمالو ‘‘ کے وزن پر اس نعرے کو باقاعدہ ایک گانے کی شکل دے دی گئی ہے ،جو اس قدر مقبول ہوا ہے کہ لوگوں نے اپنے موبائلز کی رنگ ٹون بھی اسی پر استوار کرالی ہے۔
ہمارے محبوب وزیراعظم نے کہا تو ہے کہ جب ہم جلسہ کریں گے تو لگ پتہ جائے گا، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلسے میں لوگ دس دس بیس بیس کی ٹولیوں میں آکر الگ الگ براجمان ہوجائیں اور صاحبِ موصوف کے خطاب کے دوران باری باری یہی الاپ شروع کردیں۔ جنہیں انتظامیہ جلسے سے پکڑ کر باہر بھی نکال سکتی ہے اور اس دوران کوئی ہنگامہ بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ نیز ایک ٹولی کے نکل جانے کے بعد دوسری ٹولی یہی کام شروع کردے اور اسی طرح سارا جلسہ بھی بھگت جائے اور یہ ٹولیاں بھی۔ اور لگ پتہ جائے۔ نہ معلوم کس کس کو۔
حکومت کے جن خصائل کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے، وہ لوگوں سے کبھی پوشیدہ نہیں رہے لیکن ایک تو وہ مشیت ایزدی سمجھ کر خاموش تھے، دوسرے انہیں پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی تیسری قوت بھی سر اٹھاتی نظر نہ آتی تھی اور تیسرے وہ آگاہی اور اس جرأت کے فقدان کا بھی شکار تھے جو ان دھرنوں کی وجہ سے طشت ازبام ہوئی ہے اور اس میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا ہے۔
سو، اس سارے قصے میں دھرنے والوں کا حصہ کم ہے اور خود نواز لیگ کی بدحکومتی ،زر اندوزی کے طول طویل قصوں اور عوام کے غریب سے غریب تر ہوتے جانے اور حکومت سمیت اشرافیہ کے امیر سے امیر تر ہوتے جانے کی المناک داستان کا کردار نسبتاً کہیں زیادہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دھرنوں میں کی جانے والی تقریریں سن سن کر جیسے ان کی آنکھیں کھل گئی ہوں اور انہوں نے ٹھان لی ہو کہ یہ سلسلہ اب اور زیادہ نہیں چلنے دیں گے۔ اس لیے حکومت کو اس نعرے کی مزید پذیرائی اور اس کے نتائج و عواقب کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
خود صاحبِ موصوف اور اپوزیشن لیڈروں کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ منتخب ہوکر آئے ہیں، اس لیے ان سے اس طرح استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا، تو اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ جملہ اپوزیشن پارٹیاں الیکشن کے بعد یک زبان ہوکر کہہ رہی تھیں کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے ۔ اور یہ حضرات اس دھاندلی کو اس لیے پی گئے کہ نہ صرف وہ خود اسی راستے سے گزرے تھے بلکہ ان کے ذاتی مفادات کا بھی تقاضا تھا کہ وہ '' سٹیٹس کو‘‘ ہی کی حمایت کرتے کیونکہ عمران خان کی صورت میں ایک نئی اور تیسری قوت کے ظہور سے خود ان سب پر منفی اثرات پڑسکتے تھے۔
چلیے، الیکشن سے پہلے کے معاملات اور ماضی کو تو چھوڑیے ، اس کے بعد یعنی اس سوا سال میں بھی حکومت نے مختلف مسائل پر اس قدر بے تدبیری اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا ہے کہ جس سے اس کا گراف نہ صرف مزید نیچے گیا ہے بلکہ دھرنے والوں کو بھی اس سے اپنے لیے ایک اچھی خاصی ذہنی غذا میسر آئی ہے۔ وہ چار حلقوں
کے نہ کھولنے کا معاملہ ہو یا سانحہ ماڈل ٹائون کا، بے سود مذاکرات شروع کرنے کا ہو یا مسلسل غلط بیانیوں کا، حکومت ایک آسان ترین ہدف کی طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپر سے حکومت کے خود اپنے قائم کردہ ماڈل ٹائون کمیشن کی رپورٹ کو جس طرح مخفی رکھا گیا اور اس کے مندرجات واشگاف ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کا اپنے عہدے سے چمٹے رہنا اور ٹس سے مس نہ ہونا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف تھا۔
صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف قتل کے تین پرچے عدالت کے حکم پر کاٹے جاچکے ہیں اور مستقل مزاجی کی انتہا یہ ہے کہ آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، ان مقدمات پر روٹین کی کوئی پیش رفت ہونا تو دور کی بات ہے ۔ اور ، یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنا پر لوگ عمران خان کی باتوں کو زیادہ غور سے سننے لگے ہیں اور وہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ثابت ہوچکے ہیں اور ان کے حق میں ملک بھر کے اندر ایک روچل پڑی ہے اور یہی رو ہے جو ایک بار چل پڑے تو کہیں پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔
آج کا مطلع
سفر باقی ہے کتنا اور دھارا کس طرف ہے
سفینہ کون سی جانب، ستارہ کس طرف ہے