ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والوں نے قوم کو بے مقصد دھرنے میں الجھا دیا:شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والوں نے قوم کو بے مقصد دھرنوں میں الجھا دیا‘‘ ۔البتہ صرف قادری صاحب کا دھرنا بامقصد تھا جسے انہوں نے ہمارے تعاون سے حاصل بھی کر لیا؛ کیونکہ شروع سے لے کر اب تک بریف کیس پالیسی ہی کام آئی ہے،چھانگا مانگا جس کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کا خاتمہ اور قیام امن اولین ترجیح ہے‘‘ جبکہ اس سے پہلے ہماری اولین ترجیح لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا لیکن موسم چونکہ تبدیل ہو رہا ہے اس لیے ہماری ترجیحات بھی اس کے ساتھ اپنا ذائقہ تبدیل کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ''مسائل حل کئے جائیں گے اور قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘‘ اور یہ ماشاء اللہ ہماری تیسری ترجیح اول ہے چنانچہ معزز ارکان اسمبلی سے درخواست کی جائے گی کہ براہ کرم قبضہ گروپوں کی سرپرستی سے قطع نظر کریں اور دیگر مراعات کو کافی سمجھیں اگرچہ ہم حکومت کا قبضہ آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں سمندر پار پاکستانیوں کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز شریف کو ایکسپوز کر رہے ہیں
حکومت جلد پسپا ہو گی...اعتزاز احسن
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ''ہم نواز شریف کو ایکسپوز کر رہے ہیں حکومت جلد پسپا ہو گی‘‘۔ اگرچہ نواز شریف پہلے ہی کچھ ضرورت سے زیادہ ایکسپوز ہو چکے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے کارہائے نمایاں و خفیہ کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی اور یہ باقاعدہ ہماری تاریخ کا حصہ بنے بلکہ ہمارے اکثر عمائدین نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کافی ریکارڈز قائم کیے ہیں، جنہیں ہمارے معززین نے خود بھی کئی بار توڑ دیا اور آئندہ کے لیے بھی ایسے ہی نیک ارادے رکھتے ہیں؛ تاکہ تاریخ کے جو صفحات اس ضمن میں خالی رہ گئے ہیں، وہ بھی بھرے جا سکیں‘ اللہ توفیق ارزائی فرمائے‘ آمین! جہاں تک حکومت کے پسپا ہونے کا تعلق ہے تو سارا کام تو دھرنوں نے پہلے ہی سرانجام دے رکھا ہے جبکہ اب ہماری پارٹی نے بھی قلا بازی کھاتے ہوئے اسے پسپا کرنے کی مخلصانہ کوششیں شروع کر دی ہیں کیونکہ بصورت دیگر بچے کھچے کارکنوں کے بھی چھوڑ جانے کا خدشہ ہے۔ اللہ معاف کرے!آپ اگلے روز سپریم کورٹ کی رجسٹری میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی استعفے دینا اور سپیکر
قبول کرنا نہیں چاہتے:نجم سیٹھی
سینئر تجزیہ کار اور سابق عبوری حکومت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی استعفے دینا اور سپیکر قبول کرنا نہیں چاہتے‘‘ ۔جس طرح خاکسار سے گزشتہ انتخابات میں جو کچھ سرزد ہو گیا‘ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ بیوقوف قوم پہلے سے بہت سیانی ہو گئی ہے بلکہ اس کی قوت بصارت بھی اتنی تیز ہو گئی ہے کہ پوشیدہ چیزیں بھی اسے صاف نظر آنے لگ گئی ہیں جو کہ نہایت قابل تشویش بات ہے۔ کیونکہ اب آئندہ کوئی شریف آدمی نگران وزیر اعلیٰ بننے کو تیار نہیں ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابی اصلاحات کے دوران سلیوشن وغیرہ پر بھی پابندی عائد کر دی جائے اور لوگ پنکچرڈ بائیسکلوں کے ساتھ ہی گزارا کرتے نظر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کچھ وزیروں کی چھٹی ہو سکتی ہے‘‘ البتہ جنہوں نے کچھ خدمات سرانجام دے رکھی ہیں جیسا کہ خاکسار کو بار بار پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور اب آئی سی سی کا چیئرمین۔ انہوں نے کہاکہ ''کچھ نئے وزراء آ سکتے ہیں‘‘ جبکہ اس کا معیار بھی اسی طرح کی خدمات ہو سکتی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
حکومت نے نئے جوش کے ساتھ معیشت کی بحالی کا کام شروع کر دیا ہے:آصف کرمانی
وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری آصف کرمانی نے کہا ہے کہ ''حکومت نے نئے جوش کے ساتھ معیشت کی بحالی کا کام شروع کر دیا ہے‘‘ کیونکہ پرانا جوش کچھ زیادہ ہی پرانا ہو گیا تھا جبکہ اب دھرنوں نے حکومت کی رگ رگ میں نیا جوش بھر دیا ہے۔ وزیروں کوچھوڑ‘ارکان اسمبلی کی بھی آئو بھگت شروع کر دی گئی ہے۔ ان سے ان کے مسائل کے بارے میں بھی دریافت کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ ورنہ پہلے تو وہ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے کے لیے ہی چھ چھ مہینے تک لائن میں لگے رہتے تھے۔ اگرچہ جوش کا وہ منبع بھی آدھا رہ گیا ہے اور قادری صاحب کو کرایہ وغیرہ دے کر واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اب عمران خاں کے جوش پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پٹرول وغیرہ کی قیمتیں کم کر کے وزیر اعظم نے عوام دوست فیصلہ کیا ہے‘‘ کیونکہ وہ عوام دشمن فیصلے کر کے تنگ آ گئے تھے اور کھانے میں ورائٹی کی طرح وہ اپنے فیصلوں میں بھی ورائٹی کا بے پناہ خیال رکھتے ہیں ۔ پھکی اور ہجمولا وغیرہ کی بھی خاطر خواہ ورائٹی سرکاری باورچی خانے میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
دل میں کھبا ملک
ہے رہنا مجھے/ اپنے ان لوگوں کے ساتھ/ تھوڑی سمجھ آئی اپنی جہاں پر/ جہاں/ سارا مطلب سمجھ آیا/ ماں کی محمدؐ کی باتوں سے/ لبریز لوری کا/ لوری کے دوران/ بہتے ہوئے گرم اشکوں کا/ بارش کے پانی میں ڈوبے ہوئے/ ٹھنڈے تندور کا/ نانبائی کے چھابے کا/ نرسل کا/ نرسل میں الجھے دوآبے کا ! رہنا ہے ان اپنے لوگوں کے ہمراہ/ میں نے جہاں سانس پہلا لیا/ میں نے آنکھیں جہاں اپنی کھولیں/ جہاں/ ٹھنڈی گلیاں ہیں/ گلیوں میں بوسیدہ پٹکے ہیں/ مدھم سویرے ہیں/ الفی کے گھیرے ہیں/ میں نے جہاں دیکھا/ گھری سیہ رات/ کیسے لرزتی ہے/ چشمے کی صورت نکلنا ہے/ دریا کی جانب مجھے/ اپنے دریا کی لہروں پہ/ لہروں کی جیسی ہی نہروں پہ/چلنا ہے/ چلنا ہے/ان عورتوں کی سمندر سی عمروں میں/ ان کے جلو میں/ جو شاداب نہروں پہ/ کپڑوں کو دھوتی ہیں/ اور غیر ملکی لڑائی میں مارے گئے/ شوہروں کے لیے روتی ہیں... رات بھر جاگتی ہیں/ مجھے اپنے شہروں کی / مصروف سڑکوں پہ چلنا ہے/ نایاب یکوں سے ویران سڑکیں/ مری آنکھ میں/ ریت کے دانوں کی طرح اڑیں / مجھے لمبی سڑکوں پہ/ پود لگانے ہیں/ پودے جو شاعر کے دل میں ہیں اگنے/ تری آنکھ میں/ پھیلنے ہیں/ مجھے فخر ہے/ اپنے شہروں پہ/ شہروں کی اونچی فصیلوں پہ/ اور ان پہ اونچی فصیلوں کے نیچے/ جو مدفون ہیں/ جو شمالی علاقوں کے جتھوں سے/ لڑتے مرے تھے/ میں نازاں ہوں ان پر/ جو تہہ خانوں میں / چھپ کے جانیں بچاتے تھے/ بچوں کے ہمراہ/ اوپر نہ آتے تھے/ آیات پڑھتے مجھے دیکھنا ہے/ مزاروں پہ رنگلے کبوتر اُڑتے/ ذرا دیر دانوں کوچُگ کر/ اسی سمت مڑتے/ مزاروں کے کلچر سے جڑے / مجھے دیکھنا ہے/ اولمپک کی گیموں میں تمغے اڑاتے/ ٹرافی اٹھاتے/ مجھے دل میں کھبتے ہوئے ملک کو دیکھنا ہے/ ممالک کی صف میں برابر کھڑے/ یخ ہوائوں میں جب/ اپنے قومی ترانے کی دھن پھیلتی ہے/ مجھے تب ممالک کی صف میں / برابر کھڑے ملک کو دیکھنا ہے!!
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر! اب تری عزت اسی میں ہے