اگر عمران نیا خیبر پختون خوا نہیں
بناتے تو کوئی انہیں نیا پاکستان نہیں
بنانے دے گا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اگر عمران خان نیا خیبر پختونخوا نہیں بناتے تو انہیں نیا پاکستان کوئی نہیں بنانے دے گا‘‘ بلکہ ہم خود ہی نہیں بنانے دیں گے کیونکہ جو ہماری موجیں پرانے پاکستان میں لگی ہوئی ہیں نئے پاکستان میں تو ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ملک کو ترقی کی راہ سے اترنے نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ اپنے پائوں پر کوئی بھی کلہاڑی نہیں مارتا جو ہم نے اتنی محنت سے اس ملک میں جمائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو عوام نے نیا خیبر پختونخوا بنانے کے لیے ووٹ دیا‘‘ جبکہ ہمارا تو مینڈیٹ ہی سراسر مشکوک ہو گیا ہے ورنہ ہمیں بھی نیا پاکستان بنانے کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا جس میں متعدد مہربانوں کی مساعی جمیلہ شامل تھیں جس نے مخالفین کے ہوش اُڑا کر رکھ دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے‘‘ جبکہ یہ ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں‘ یعنی اس سے بادشاہت کا لطف بھی اٹھایا جا رہا ہے اور اپنے عزیز و اقربا کو اِدھر اُدھر اکاموڈیٹ کر کے حقوق العباد کا بھی مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز برلن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
داعش کی وال چاکنگ برداشت نہیں
کی جائے گی... شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''داعش کی وال چاکنگ برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ اور اس کے جواب میں فوری طور پر اس مضمون کی وال چاکنگ کردی جائے گی کہ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے ع پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ اول تو جن طالبان کے ذریعے یہ حضرات سرگرم عمل ہیں ان سے درخواست کی جائے گی کہ داعش والے معززین ہمیں پریشان نہ کریں کیونکہ ہم ان کے اپنے ہی آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ حالانکہ اس نیک کام میں تھوڑا وقفہ بھی دینا چاہیے‘ اور ایک دو روز کا ناغہ بھی کر لینا چاہیے‘ کم از کم ہم مسلسل جھوٹ نہیں بولتے بلکہ دونوں بھائی یہ شغل باری باری فرما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر سفید جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ حالانکہ ہمارے ہاں طرح طرح کے رنگ موجود ہیں جن سے جھوٹ کو رنگین بنایا جا سکتا ہے جبکہ ان سے کام نہ لینا رنگوں کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیلاب متاثرین کی امداد کا کام شفاف طریقے سے جاری ہے‘‘ جس طرح ہمارے کاموں میں شفافیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان کے دورے کے بعد متاثرین سے خطاب کر رہے تھے۔
کرپٹ افسر کو نکالیں تو اسے بحال
کر دیا جاتا ہے‘ یہ ظلم ہے... عابد شیر علی
پانی و بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''کرپٹ افسر کو نکالیں تو عدالت بحال کر دیتی ہے‘ یہ ظلم ہے‘‘ یعنی اگر عدالتیں ہی ظلم پر کمر باندھ لیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے‘ اگرچہ کچھ عرصے بعد ہم ایسے افسروں کو خود ہی بحال کر دیتے ہیں اور انہیں عدالت میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر عدالتوں نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا تو آ کر ہمارا کام بھی خود سنبھال لیں‘‘ اور ہم سب بھوکے مر جائیں کیونکہ جملۂ شرفاء اسی دھندے پر گزارا کر رہے ہیں‘ آخر ہمیں بیروزگار کر کے عدالتوں کو کیا ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ '' غیر معینہ حکم امتناعی سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے‘ اگرچہ حکومت خود بھی کافی حکم امتناعی حاصل کر کے موجیں کر رہی ہے‘ حتیٰ کہ پنجاب حکومت تو حکم امتناعی پر ہی چل رہی ہے جبکہ سپیکر صاحب کا گزارا بھی کافی عرصے سے اسی پر ہو رہا ہے جبکہ بڑے میاں صاحب نے بھی متعدد حکم امتناعی لے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم قانون بنا رہے ہیں کہ حکم امتناعی ایک ہفتے سے زیادہ نہ ہو‘‘ جبکہ حکومتی حضرات ہر ہفتے بعد اس میں توسیع کروا لیا کریں گے۔ آپ اگلے روز پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
عاصمہ جہانگیر بنام عمران خان
اخباری اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے اپنی توپوں کے منہ مستقل طور پر عمران خان کی طرف کر رکھے ہیں اور موصوف کی طرف سے تُرکی بہ تُرکی جواب بھی حاصل کر رہی ہیں۔میرے خیال میں انہیں اس قدر جانبدار حد تک سیاسی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ حامد خان کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتی ہیں اور حالیہ بار کے الیکشن میں نواز لیگی وکلاء نے بھی موصوفہ کے گروپ کی حمایت کی تھی تو بھی انہیں بار کے معاملات تک ہی محدود رہنا چاہیے یا زیادہ سے زیادہ خواتین کے حقوق وغیرہ کی حد تک‘ کیونکہ وہ باعزت خاتون ہیں اور ہم جیسے ان کے نیازمند نہیں چاہتے کہ وہ اس طرح کے یکطرفہ بیان دے دے کر اور اسی طرح کے جوابات موصول کر کر کے ہمارے لیے دلسوزی کا سامان پیدا کریں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ دھرنا دے کر عمران خان نے کیا حاصل کیا ہے تو یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے دھرنے میں تقریریں کر کر کے عوام کے اندر شعور اور باخبری کی ایک ہمہ گیر اور زبردست لہر دوڑا دی ہے‘ اور حکمرانوں بلکہ دونوں بڑی پارٹیوں کا اصل چہرہ انہیں دکھایا ہے اور وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہیں دھرنا ختم کرنے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے لیکن ان کے دھواں دھار جلسوں میں جو لوگ دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں تو یہ سب کچھ دھرنوں کی وجہ سے ہی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ آنے والے دنوں کی سرد راتوں اور دنوں میں‘ جن میں بارش بھی شامل ہے‘ انہیں دھرنوں میں بٹھا کر مصیبت میں ڈالتے‘ ان کی بجائے تابڑ توڑ جلسے کہیں زیادہ بہتر متبادل ہے۔ ان کے تندوترش اندازِ بیان پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے لیکن یہ خطابی سیاست ہے اور اس میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر ان کے جلسوں میں آئے دن زیادہ رونق ہونے لگی ہے تو ان کی حکمت عملی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ جیسی حکومت ہے‘ وہ اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر رہے ہیں یعنی جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ عمران خان میرا رشتے دار نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حمایت مطلوب ہے بلکہ اس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرنا مطلوب ہے جس کی وجہ سے اس کا کھلے بازوئوں سے ہر جگہ استقبال کیا جا رہا ہے۔ لوگ اس کی بات پر اعتبار کرتے ہیں‘ اندازِ بیاں جیسا بھی ہو‘ اس بارے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
آج کا مطلع
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
ہمارے ساتھ جو ایک اور دربدر کوئی تھا