"ZIC" (space) message & send to 7575

ابرار احمد کی تازہ نظمیں

آدمی بھول جاتا ہے 
آدمی بھول جاتا ہے... وہ وقت... جب اُس کا دل دکھایا گیا... یا دعائوں اور محبتوں سے شرابور کر دیا گیا... دیوار پر اُس کی تصویر لگا کر... اسے بھلا دیا گیا یا کھلے بازوئوں میں بھر لیا گیا... بھول جاتا ہے آدمی... روزی روٹی کے لیے... کھائی جانے والی ٹھوکریں... بیماریوں سے اُڑی رنگت... منہ کے بل گر جانے کی خفت... دیکھتا‘ سہتا... اور بھولتا جاتا ہے آدمی... پھول‘ جو اُسے پیش کیے گئے... کرسیاں‘ جو اُس کے نیچے سے کھینچ لی گئیں... لمس‘ جو اس کے چہرے کی گرد صاف کرتے رہے... اور وہ دوست... جن سے ملنے میں اُس نے بہت دیر لگا دی... آدمی دیکھتا ہے... ٹوٹتے ہوئے ستارے... ڈوبتا سورج... خالی ہوتی بستیاں... بکھرتے خواب... بجھتے چراغوں کی لمبی قطاریں... اور بھول جاتا ہے... وہ اجنبیت... جو اس زمین پر اس کے ساتھ رہی... تیز چلتی گاڑی کی کھڑکی سے گزرتے مناظر کی طرح... بیت جانے والے ماہ و سال... بستیاں... جن سے اُس کا گزر ہوا... لوگ‘ جن سے اس نے کلام کیا... پسندیدہ خوشبوئیں... اور کپڑے... جو اس پر سجا کرتے تھے... اور پھر... آخری ٹھوکر کے آس پاس... کسی اجنبی آسمان کے نیچے... نہیں بھول پاتا... اس آنگن کو... جہاں اس نے... اپنے جیسوں کے ساتھ آنکھ کھولی... اور پہلی مرتبہ دنیا کو... حیرت اور طمانیت سے دیکھا... اور دہلیز پار کرنے کی وہ ماتمی شام... جب آس پاس کہیں... کوئی چپکے سے... اسے الوداع کہہ رہا تھا... اور کچھ آنسوئوں بھری آنکھیں... اُسے موڑ مڑتے تک... دیکھتی رہ گئیں... اور جس شام کے بعد... آسمان نے پھر کبھی... دن کا چہرہ نہیں دیکھا۔ 
وہ خواب نہیں تھا 
بادلوں بھری اس رات میں... ایک نیم روشن بالکونی پر... ابھی ابھی میں نے اسے دیکھا ہے... وہ... جس کا چہرہ... چاند کی طرح جگمگاتا تھا... جس کے ہونٹوں پر... پرندے اُترتے تھے... جس کے لفظوں میں... راتوں کی خاموشی روتی تھی... اور جس کی جانب... میں‘ اپنی مرجھائی ہوئی نیند کے ہمراہ... چل کر گیا تھا... وہ‘ جس نے... مری بے پناہ تھکن کو آسودگی عطا کی... اور آنکھوں میں آنسو بھردیئے... جس نے مجھے انتظار دیا... اور صبر‘ اور حوصلہ... جانے وہ اب کہاں ہے؟... ہر شام کے موڑ پر... میں اسے دیکھتا ہوں... یا شاید نہیں... میرے ہاتھ... مسلسل اس کی طرف بڑھتے ہیں... کام کاج کے دوران... وہ آرام کے ایک لمحے کی طرح ہے... وہ‘ جو درختوں اور بادلوں کے درمیان... کہیں موجود تھا... دُودھیا سی ایک عمارت میں... جس کی کھڑکیوں کے پردے... ٹھنڈی ہوا میں... ہر وقت ہلا کرتے تھے۔ شور کے عقب میں... اس کی آواز ابھرتی ہے... یا شاید... کچھ پتا نہیں چلتا... نیوئن سائن
کی بتیاں... جلتی اور بجھتی ہیں... ابھی ابھی وہ یہیں تھا... اور اب‘ کہیں نہیں... وہ خواب نہیں تھا... مجھے یاد ہے... جب میں نے... اس کا خواب دیکھنا شروع کیا... میں اُسے دیکھ چکا تھا۔ 
چہل قدمی کرتے ہوئے 
کہیں کوئی بستی ہے... جو خود رَو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری... جہاں بارش چھینٹے نہیں اڑاتی... بے آرام نہیں کرتی... صرف مہکتی ہے... مٹی سے لِپے گھروں میں... ہوا شور کرتی... آوازیں سوئی رہتی ہیں... کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے... پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان... انجانے پانیوں کی جانب... نہریں بہتی ہیں... اور راستے... کہیں نہیں جاتے... پرندوں کی چہکاریں لامتناہی عرصے کے لیے... پتوں کو مرتعش کر دیتی ہیں... دنیا سے الگ... کہیں ایک باغ ہے... غیر حتمی دوری پر... سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا... کہیں کوئی آواز ہے... بے نہایت چُپ کے عقب میں... بے خال و خد‘ اُلو ہی‘ گمبھیر... کہیں کوئی غروب نہ ہونے والا دن ہے... اور کوئی رات ہے... اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہم راہ... جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے... یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے... اب مجھے آتشدان کے پاس... بیٹھ جانا ہے... تمہارے مرجھائے چہرے کی چاندنی میں... کسی مٹیالی دیوار سے ٹیک لگا کر... 
مجھے کوئی نہیں روکتا 
چار سُو پھیلی چاندنی سے منہ موڑ کر... بے پناہ ویرانی میں... رو دینے کو... جب روشنی اور امید کی جانب... کھلتی کھڑکیوں کو بند کرنے لگتا ہوں... کسی دل نشیں مقام سے کوچ کر کے... ٹھیک طرح‘ سانس لینے سے... انکار کرنے لگتا ہوں... مجھے کوئی نہیں روکتا... ترک کرنے لگتا ہوں ان جگہوں کو... جن سے میری مٹی نمی لیتی ہے۔ بند دروازوں سے ٹکراتے ہوئے... کسی ناممکن خواب کو... روانہ ہو جاتا ہوں... گاتے ہوئے پرندوں کو اُڑا کر... درختوں سے لپٹ جانے کو... مہکتے لبادوں... اور چہل قدموں کی سرسراہٹ سے... بھاگنے لگتا ہے... دکھن کی دہلیز پر ڈھ جانے کے لیے... منزلوں سے دور... راستوں میں اُڑا چلا جاتا ہوں... خاموشی کی جانب اپنا سفر تیز تر کر دیتا ہوں... اور ایک خراش کو... جب تیز دھار آلے سے گہرا ہونے لگتا ہوں... کوئی نہیں روکتا مجھے... دھند میں کھو جانے والے... شاید دیکھ سکتے ہیں... اور صرف پھیلا سکتے ہیں اپنی باہیں۔ 
رات کی تاریکی میں 
رات کی تاریکی میں... کوئی راستہ‘ جا نکلتا ہے... ان زمینوں کو... جن پر ہمارے لیے... آسودگی کی نہریں بہتی ہیں... جہاں کوئی ہمارا انتظار کرتا ہے... کوئی راستہ لق و دق صحرا کی جانب... پیاس‘ حلق میں کانٹے بھر دیتی ہے... اور ساربانوں کے گیت... دلوں سے لپٹ کر... آنسو بہاتے ہیں... کوئی دریا کے کناروں کو جا نکلتا ہے... جہاں ملاح پتوار چلاتے ہیں... اور دور سے ہاتھ ہلاتے ہیں... کوئی‘ ان صحنوں کی طرف... جن میں کبھی ہم آباد تھے... ان دیاروں کی جانب... جن کے خدوخال پہچانے نہیں جاتے... اجنبی چہرے... دھند میں تیرتے پھول دکھائی دیتے ہیں... کوئی راستہ مٹی میں اُترتا چلا جاتا ہے... کوئی محض ایک پگڈنڈی... خوف کے کُہر میں لپٹی... جس پر چلتے ہوئے... ہمارے قدم ڈولنے لگتے ہیں... کوئی راستہ‘ راستہ نہیں لگتا... گرتے ہوئے سائے کی طرح... آنکھیں بھر آتی ہیں... پائوں تھم جاتے ہیں... اور ایک راستہ... اس کے گھر کی سونی دہلیز کو جاتا ہوا... جہاں اندھیرے اور دیواروں کے عقب میں... آنسو بہاتے‘ معدوم ہوتے... میں اُسے دیکھتا... اور آواز دیتا ہوں... اُس راستے پر‘ سب سے زیادہ روشنی ہے! 
آج کا مطلع 
کوئی باقی ہے ابھی دل میں تماشا لگنا 
تھا یہ اتنا جو تمہارا ہمیں اچھا لگنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں