"ZIC" (space) message & send to 7575

جیسی روح ویسے فرشتے

وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ جناب ریاض پیرزادہ کا یہ دلچسپ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ فوجی عدالتیں بنانے والی بزدل قیادت کو حکومت کا حق نہیں‘ آزاد عدلیہ کی موجودگی میں فوجی عدالتیں کمزور اور خوفزدہ قیادت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک موصوف کے خلاف کوئی ایکشن بھی لیا جا چکا ہو‘ حالانکہ یہ بیان دینے سے پہلے یا بعد میں‘ وزیر صاحب کو خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا لیکن چونکہ ہمارے ہاں وزراء کے کسی مسئلے پر مستعفی ہو جانے کا رواج ہی نہیں ہے‘ اس لیے شاید وہ اس بات کا حوصلہ نہ کر سکیں۔ نیز حکومت خود چونکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور کہیں نظر نہیں آتی‘ اس لیے شاید وہ بھی اسے آزادیٔ اظہار ہی کا کرشمہ شمار کرے۔ 
اس حوالے سے خود سپریم کورٹ کی یہ آبزرویشن ریکارڈ پر موجود ہے کہ کیا ملٹری کورٹس میں فیصلے کرنے والے ہم سے زیادہ ذہین ہیں؟ نیز عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان بھی ایک ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ چیف جسٹس کو ہٹا کر اس کی جگہ کسی جرنیل کو بٹھا دیا جائے! 
اس ضمن میں کرنے کا جو اصل کام تھا وہ حکومت نے کیا نہیں‘ یا اس میں ایسا کرنے کی اہلیت ہی نہیں تھی کہ پراسیکیوشن کے شعبے میں بہتری لاتی‘ ججوں اور گواہوں کی سکیورٹی کا کوئی اہتمام کرتی‘ لیکن لگتا
ہے کہ حکومت کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے یا وہ رفتہ رفتہ اپنے اختیارات اور رِٹ سے ازخود ہی دستبردار ہو رہی ہے اور سارے معاملات فوج کے سپرد کرتی چلی جا رہی ہے۔ دفاعی معاملات تو پہلے ہی عسکری قیادت کے پاس ہیں جبکہ خارجہ معاملات بھی اسی کو زیب دے رہے ہیں۔ اے پی سی اور اس کے بعد اہم اجلاسوں میں عسکری قیادت کی موجودگی‘ حکومت کی طرف سے دھرنے کے مسئلے پر عسکری قیادت سے تعاون کی اپیل‘ آرمی چیف کے برطانیہ‘ افغانستان‘ امریکہ اور ایک دو مسلم ممالک کے دورے‘ وہاں ان کا غیر معمولی اور پُرتپاک خیرمقدم‘ افغان سربراہ کا جی ایچ کیو کا دورہ اور اب وزیراعظم کی بجائے اے پی ایس کے شہید بچوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے آرمی چیف کا سکول کا دورہ وغیرہ اس بات کی واضح طور پر غمازی کرتے ہیں کہ اس وقت اصل زمامِ اختیار عسکری قیادت کے پاس ہے! آرٹیکل 245 پہلے ہی نافذ ہے۔ 
اور یہ جو حکومتی حلقوں کی طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ سول اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہیں تو یہ بات بھی حقیقت سے کوسوں دور ہے کیونکہ مل جل کر دہشت گردی کے خلاف جو پلان بنایا گیا تھا‘ اس پر حکومتی حصے کا عملدرآمد محض نیم دلانہ ہے اور اس پر بھرپور طریقے سے ایکشن لینا حکومت کے لیے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ان عناصر کے خلاف دیانتداری سے کارروائی کرنے میں حکومت کو دشواری محسوس ہوتی ہے ،جبکہ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بے تُکے مذاکرات سے تنگ آ کر آپریشن بھی فوج نے خود ہی شروع کیا تھا جس کی تائید تین دن بعد حکومت کو کرنا پڑی۔ حکومتی نیک نیتی کا فقدان اس سے بھی ظاہر ہے کہ فوجی عدالتوں کو کیس ریفر کرنے کا اختیار بھی خود حکومت نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔
چنانچہ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھ رہی ہے کہ اصل اختیار عسکری قیادت کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر جگہ اس اختیار کو بروئے کار بھی لا رہی ہے۔ ایک طرح سے خود حکومت کو بھی یہ صورت حال راس ہے کہ ریت کی طرح معاملات اس کے ہاتھوں سے خود ہی نکلتے چلے جا رہے ہیں‘ نیز اس طرح وہ اپنی بدحکومتی اور نااہلی کی ستر پوشی بھی کرنے میں مصروف ہے اور مارشل لاء سے مکمل طور پر بے خوف اور یہ بھی سمجھتی ہے کہ اگر یہ صورت حال پیدا ہوئی بھی تو اُسے شہید بننے کا موقع مل جائے گا۔ ویسے بھی‘ ملک کی روز بروز ابتر ہوتی ہوئی صورت حال اور آئے دن کے نو بہ نو بحرانوں سے بھی چھٹکارا اسے تبھی مل سکتا ہے ورنہ حالت تو یہ ہے کہ میگا کرپشن کے نت نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں اور بیوروکریسی کے جو دیانتدار لوگ ان کی نشاندہی کرتے ہیں انہیں ویسے ہی کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے ۔
سو‘ قصہ مختصر‘ افواج پاکستان ضرب عضب میں بھی مصروف اور قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور دیگر ملکی امور بھی فرنٹ فٹ پر جا کر نمٹا رہی ہیں کیونکہ حکومت نے اس کے لیے یہ جگہ خود خالی کی ہے؛ تاہم اسے مارشل لاء نہیں کہا جا سکتا اور اگر ہو بھی تو یہ کوئی اپنی ہی قسم کا مارشل لاء ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پورے اور بھرپور مارشل لاء کے لیے عسکری قیادت کے پاس فرصت ہی نہ ہو جبکہ الطاف بھائی نے بھی کھل کر مارشل لاء کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ہم مارشل لاء کے مخالف اس لیے ہیں کہ یہ کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ مثلاً حالیہ مارشل لاء کو لے لیجیے جس میں جنرل مشرف نے سب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگایا اور اسے اپنی پہلی ترجیح بتایا‘ لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی برف میں لگ گئے اور جمہوریت کی روایتی اور نام نہاد بحالی میں مصروف ہو گئے۔ جبکہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے یعنی وہ رقم جو لوٹی جا رہی ہے اور وہ بھی جو لوٹی جا کر بیرونی بینکوں میں آرام کر رہی ہے‘ چنانچہ اگر اس دفعہ بھی کوئی نرم قسم کا ہی مارشل لاء لگنا ہے تو 'بخشو بی بلی ،چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔ قوم کے ساتھ جو ہو رہا ہے اسے ہوتا رہنے دیجیے کہ اسے اس کی عادت پڑ چکی ہے۔ اسی لیے اس ذلت اور خواری میں بھی یہ سڑکوں پر نکلنے سے معذور ہے۔ نیز ہمارے حکمران بھی اس کی نفسیات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں اور اسے وہی دوا مہیا کر رہے ہیں جس سے یہ مرتی ہے نہ جیتی ہے۔ سو‘ قوم اور حکومت دونوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے جبکہ دونوں کا کام بھی ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے‘ یعنی جیسوں کو تیسا! اور جیسی روح ویسے فرشتے!! 
آج کا مطلع 
چلو اتنی تو آسانی رہے گی 
ملیں گے اور پریشانی رہے گی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں