"ZIC" (space) message & send to 7575

’’اسی دشت میں‘‘…اظہر عباس کی شاعری

فی زمانہ آپ اپنے ہنر اور میرٹ پر واجب پزیرائی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کے سر پر کسی ٹھیک ٹھاک لابی کا سایہ نہ ہو جو لسانی بھی ہوسکتی ہے، فرقہ وارانہ بھی اور نظریاتی وغیرہ بھی۔ اس کرشمے کے بغیر آپ پیچھے رہ جانے کے لیے تیار رہیں۔ بے شک پانی کی طرح میرٹ بھی اپنا راستہ خود بناتا ہے مگر آج کل نہیں۔ شعر و ادب میں شاید ہی کوئی ایسا تیس مار خان نظر آئے جس نے کسی مخصوص لابی کے بغیر گوہر مراد حاصل کرلیا ہو یعنی شہرت کی بلندیوں تک پہنچ چکا ہو۔ پھر چھوٹے شہر کے اپنے مسائل اور محدودات ہوتے ہیں جو آپ کو پیچھے تو دھکیل سکتے ہیں آگے کبھی نہیں بڑھنے دیںگے۔
اظہر عباس شیخوپورہ کا رہائشی ہے اور ایک کلینیکل لیبارٹری چلاتا ہے۔ ایک شعری مجموعہ پچھلے سال شائع ہوچکا ہے۔ غزل گو ہے اور اس جیسی سادہ و پرکار غزل میرے تو خیال میں اور کوئی نہیں کہہ رہا۔ سادہ و سلیس سے مراد سہل ممتنع نہیں کیونکہ یہ اس سے آگے کی بات ہے۔ میں نے اس مختصر کتاب سے اپنی دانست میں جتنے عمدہ اشعار نکالے ہیں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا لیکن معاملہ بہرحال اس کے برعکس ہے اور ہمارے عدل و دیانت پر ہمیں باقاعدہ شرمندہ کرتے ہوئے نمونہ کلام کے طور پر چند شعر دیکھیں:
اکیلا میں ہی نہیں جا رہا ہوں بستی سے
یہ روشنی بھی میرے ساتھ جانے والی ہے
ابھی تو کوئی بھی نام و نشاں نہیں اس کا
ہمیں جو موج کنارے لگانے والی ہے
ہر ایک شخص کا یہ حال ہے کہ جیسے یہاں
زمین آخری چکر لگانے والی ہے
یہ ایک عشق قیامت سے کم نہ تھا اظہرؔ
سنا ہے اور مصیبت بھی آنے والی ہے
میں دشت وحشت کی ریت ہوں اور تو ایک دریا
مری روانی تری روانی سے مختلف ہے
ابھی بنا ہی رہا تھا میں ریگ ساحل پر
کہ ایک موج نے آکر مٹا دیا ہے بدن
یوں تو کیا کیا نہ لیا زاد سفر چلتے ہوئے
چند سپنے ہیں جو سامان میں آتے ہی نہیں
کئی دیوں نے میرے ہاتھ تھام رکھے تھے
ہوائے سمت مخالف کو جا رہا تھا میں
جو یاد کرتے تو شاید میں یاد آ جاتا
تمہارے خواب کے اندر کہیں پڑا تھا میں
اس لیے دل کو جلاتا نہیں میں
تیرا سامان پڑا ہے اس میں
بارہا یوں بھی ہوا، ڈوبے ہوئے خواب میرے
اس کی آنکھوں سے نمودار ہوا کرتے تھے
وائے حیرت کہ ہمیں تو نے نہیں پہچانا
ہم تِری راہ کی دیوار ہوا کرتے تھے
تمہارے بعد روئے تو نہیں ہم
ذرا آواز بھاری ہوگئی ہے
اپنے نیزے پہ سجا کر لے جا
دولت سر ہوں، اٹھا کر لے جا
دوسری شکل نہیں پانی کی
آنکھ مشکیزہ بنا کر لے جا
دو قدم کیا چلا چراغ کے ساتھ
بات کرتی نہیں ہوا مجھ سے
کن دیوں کو نہیں بجھانا تھا
پوچھ لیتی اگر ہوا مجھ سے
جس کو مجھ سے جو ملا وہ لے گیا
میں عمارت ہوں کوئی ڈھائی ہوئی
چلو اچھا ہوا تم لوٹ آئے ہو
میرا یوں بھی گزارا ہونے والا تھا
پھر تو اس کی حالت دیکھنے والی تھی
میں نے جب دریا سے پوچھا، پانی ہے ؟
اس کو ہنستے ہوئے جانے کی اجازت دینا
بس یہی کام ہے اس عشق میں ہمت والا
تمام عمر محبت کا کھیل کھیلا میں
اور ایک بار محبت ہوئی تو ہار گیا
تمہارے حصے میں کس طرح آئیں گی بہاریں
یہ دشت سارا مجھے ملے گا، کہاں لکھا ہے
تجھے میں خود سے جدا نہیں کرنے والا اظہرؔ
کہ تو دوبارہ مجھے ملے گا کہاں لکھا ہے
میں باہر سے بھلا کب ٹوٹتا تھا
مجھے اندر سے توڑا جارہا ہے
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں