گورنر چودھری سرور کومستعفی ہوئے جتنا عرصہ گزر چکا ہے، میرا خیال ہے ملک کا کوئی بھی صوبہ اتنے دن گورنر کے بغیر نہیں رہا۔ متوقع گورنر کے بارے اندازے لگائے جارہے ہیں اور اس ضمن میں بعض نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ شروع شروع میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ میاں خاندان کے ساتھ دیرینہ اور انتہائی قریبی تعلقات اور خدمات کے ایک طویل سلسلے کے سبب سے جناب عطاء الحق قاسمی کو اس منصب کی ذمہ داری سونپی جائے گی لیکن معاملہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا جبکہ اب جناب نجم سیٹھی نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کھل کر موصوف کے نام کی تائید کردی ہے اور کئی اسباب کی بنا پر انہیں اس عہدے کا حقدار قرار دیا ہے اور ثقافتی لحاظ سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔
تاہم، اس کے امکانات بظاہر نہایت کم نظر آتے ہیں کیونکہ جو لوگ میاں صاحبان کے طور طریقوں سے واقف ہیں ان کے مطابق ایک تو یہ سمجھا جائے گا کہ پنجاب آرٹس کونسل کا جو عہدہ وہ نبھا رہے ہیں وہ ہی کافی ہے ، نیز یہ حضرات اب نرے کاروباری ہی نہیں رہے بلکہ مکمل طور پر سیاسی بھی ہوچکے ہیں اور ان کے نزدیک
سب سے بڑی حقیقت یہ ہوگی کہ نیا گورنر انہیں سیاسی فائدہ کس حد تک پہنچا سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس سلسلہ میں اتنی تاخیر کا بھی مظاہرہ کیا جارہا ہے کیونکہ اگر قاسمی صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی جانی ہوتی تو یہ کام بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔ ویسے بھی صاحب موصوف تو میاں صاحبان کے لیے گھڑے کی مچھلی ہیں اور وہ انہیں مطلوب سیاسی فائدہ بھی کیا پہنچا سکتے ہیں حالانکہ جب ہمارے دوست عرفان صدیقی کو مشیر بنایا گیا تو اس وقت بھی عطاء الحق قاسمی کے نمبر ان سے کہیں زیادہ تھے اور صدیقی صاحب کی نسبت ان کی قلمی خدمات بھی ہزار ہا گنا زیادہ تھیں۔
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت ادبی اور ثقافتی پزیرائی کے طور پر یہ کام کر گزرے گی، وہ یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ میاں صاحبان جلسوں میں عطاء الحق قاسمی کے شعر پڑھ دینا ہی ضروری خیال کرتے ہوں گے جبکہ اکا دکا ادبی اور ثقافتی میلوں کے علاوہ اس شعبے میں حکومت کی طرف سے کبھی خصوصی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا اور جو
ایسے ادارے پہلے سے موجود ہیں اور جن میں اکادمی ادبیات ، اردو سائنس بورڈ ، اردولغت بورڈ اور نیشنل بک فائونڈیشن وغیرہ شامل ہیں ایک عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہیں اور ان کے فنڈز میں بھی بار بار کٹوتی کی جارہی ہے چہ جائیکہ کوئی ایسا نیا ادارہ قائم کیاجائے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں باہر سے آنے والے ادیبوں کی رہائش کے لیے ایک ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ بھی شروع کرنے کی خبریں آئی تھیں لیکن اس میں بھی اب تک کسی پیش رفت کی اطلاع نہیں ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ ادیب اور صحافی ہی رائے عامہ استوار کرنے کا سب سے بڑا باعث ہیں۔ اور اس حوالے سے ایک ادیب اور صحافی کی پزیرائی مجموعی طور پر بھی اس طبقے کی عزت اور حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہے۔ نیز اگر ایسا کرلیاجائے تو صوبائی حکومت کے لیے گورنر کی جانب سے کسی بھی طرح کے عدم تعاون یا کوئی رکاوٹ بننے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور اس فیصلے کو عمومی طور پر سراہا جائے گا جبکہ عطاء الحق قاسمی کی مسلسل خدمات کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان کے پیش نظر یہ منصب بھی کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ع
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات
اور اب خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل :
وہ بڑی بھی نہیں‘ نہ چھوٹی ہے
کہیں دبلی‘ کہیں سے موٹی ہے
یہ کسی کا ہوائی بوسہ بھی
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہے
چیل کے گھونسلے سے لایا ہوں
یہ جو تازہ بتازہ بوٹی ہے
میں نے چھینی ہے اس سے تو پھر کیا
اس نے بھی اور سے کھسوٹی ہے
دل وہ بھوکا ہے‘ جو سوال کرو
ترت اس کا جواب روٹی ہے
درمیاں درمیاں ہی تھا سب کچھ
کوئی ایڑی ہے اور نہ چوٹی ہے
فرق چھوٹے بڑے کا ہے سارا
اپنا کوٹھا ہے‘ اُن کی کوٹھی ہے
کیا وہ درگاہ ناز تھی جس میں
بھنگ اک عمر ہم نے گھوٹی ہے
جسے ہر دم اچھالتا ہوں، ظفرؔ
ایک اٹھنی ہے، وہ بھی کھوٹی ہے
آج کا مقطع
خوشبوئیں ہی خوشبوئیں بکھری تھیں ہر جانب‘ ظفرؔ
کیا پسینے تھے رواں اور کیا معطر کام تھا