کراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کا فیصلہ کن مرحلہ آ گیا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کا فیصلہ کن مرحلہ آ گیا ہے‘‘ جبکہ یہ مرحلہ تو کئی سال پہلے کا آیا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ کن نہیں ہوا تھا کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ خاکسار فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر ہی کرتا ہے چاہے اس میں مہینے بلکہ سال تک کیوں نہ لگ جائیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''بندوق صرف ریاست کے پاس ہوگی‘‘ کیونکہ اب اس کا فیصلہ کن مرحلہ بھی آ چکا ہے اور کم از کم اس فیصلے پر مجھے داد ضرور ملنی چاہیے‘ ویسے بھی جن کے پاس بندوق ہے انہیں اس کے استعمال کا حق بھی خوب معلوم ہے؛ تاہم ہم نے اپنی ساری بندوقیں مال خانے میں جمع کرا دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ناجائز اسلحہ برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ اور‘ اب تک جو برداشت کیا ہے اس کا فائدہ کافی اٹھا لیا گیا ہے اس لیے اسے مزید برداشت کرنے سے معذور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''معاشرے کو گمراہ عناصر سے پاک کریں گے‘‘ اور ہمارے جس فقرے کے بعد ''گے‘‘ آئے‘ اس کا انجام بھی سب کو سمجھ لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جیلوں اور عبادت گاہوں کی فول پروف سکیورٹی یقینی بنائی جائے... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جیلوں اور عبادت گاہوں کی فول پروف سکیورٹی یقینی بنائی جائے‘‘ اور امید ہے کہ ایسا ہو جائے گا اگرچہ اب تک تو صورت حال یہی چلی آ رہی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہیں‘ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ بہرحال کہنا ہی ہمارا فرض ہے جو ہم ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی بقاء کی جنگ میں جیت ہی واحد آپشن ہے‘‘ جو افواج پاکستان نے آپریشن کی شکل میں خود ہی شروع کر دی تھی اور بالآخر ہم نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا تھا اگرچہ گردن کافی سخت ہے اور سر کو خم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی‘‘ البتہ شرفاء اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ انہوں نے یہ اسلحہ محض سجاوٹ کے لیے رکھا ہوا ہے جبکہ اب ہم نے بھی طالبان سمیت ایسے عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی شروع کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بقاء کی یہ جنگ پوری قوم کا مشن ہے‘‘ اور اب تو ہم بھی ماشاء اللہ اپنے آپ کو قوم کا حصہ ہی سمجھتے ہیں جو دراصل غریب غرباء پر ہی مشتمل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جسٹس شاہ خاور اور پروفیسر خورشید سے اظہار افسوس کر رہے تھے۔
عوام کی طاقت سے نیا آزاد کشمیر بھی بنائیں گے... جہانگیر ترین
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''عوام کی طاقت سے نیا آزاد کشمیر بھی بنائیں گے‘‘ کیونکہ نیا پاکستان بنانے سے اب فارغ ہو چکے ہیں جبکہ نیا کے پی کے بھی نیا ہونے ہی والا ہے‘ بس ذرا عوام کی طاقت حاصل ہونے کی دیر ہے اگرچہ ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ کبھی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں تو کبھی کسی کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ ''امدادی رقوم کا حساب لیں گے‘‘ اگرچہ اس کے لیے فی الحال کوئی اختیار وغیرہ ہمارے پاس نہیں ہے لیکن کچھ کام اختیار کے بغیر ہی کر لیے جاتے ہیں‘ اس لیے اس بارے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کشمیریوں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے‘‘ کیونکہ پاکستانیوں کے حقوق کی جنگ لڑ کر فتح یاب ہو چکے ہیں اور اب کرنے کے لیے کوئی خاص کام بھی نہیں ہے ماسوائے عمران خان کی شادی کے،جو بھی تسلی بخش طور پر کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کی طاقت سے کرپٹ حکمرانوں کو اقتدار سے نکال باہر کریں گے‘‘ اگرچہ یہ کم بخت عوام بھی ان حکمرانوں ہی کا ساتھ دیں گے ،تاہم ہمارا خیال ہے کہ اب تک انہیں عقل آ گئی ہوگی۔ آپ اگلے روز مظفرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
زندہ قوم؟
معین خان کراچی ایئرپورٹ پر اُترے تو ہماری زندہ قوم کے کچھ زندہ تر افراد ان کے استقبال کے لیے گندے انڈے لے کر پہنچ گئے تھے لیکن معین خان انہیں جُل دے کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ماشاء اللہ ہم اس کام میں یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ آن کی آن میں زیرو کو ہیرو کر دیں اور ہیرو کو زیرو۔ اگرچہ موصوف نے یہ کہہ کر قوم سے معافی بھی مانگ لی ہے کہ غلط جگہ پر کھانا کھانے چلا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کچھ ضرورت سے زیادہ ہی زندہ واقع ہوئی ہے اور یہی کچھ میچ ہارنے پر بھی کرتی ہے۔ اگرچہ چیئرمین کرکٹ بورڈ شہریار خان نے بھی کہا ہے کہ وہ معین خان کو کوئی سزا دینے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ قوم کے بعض افراد کے پاس سزا دینے کا جو اختیار ہے وہ اسے استعمال کرنے میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سنجیدہ ہیں حالانکہ دیگر کسی کام میں یہ سنجیدہ نظر نہیں آتے‘ اس لیے ان کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ویسے بھی آج کل ہم دعائوں پر ہی گزارا کر رہے ہیں جو اگرچہ ہمارے اعمال کی وجہ سے قبول بھی نہیں ہوتیں۔
اخباری اطلاع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعد میں ان نوجوانوں نے وہ انڈے اپنے ہی سروں پر پھوڑ لیے ، یعنی حق بہ حقدار رسید ؎
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
آج کا مقطع
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں‘ ظفرؔ
یہ اگر وہ خود نہیں تھا‘ یہ اگر آواز تھی