ڈیٹ لائن لاہور سے خبر کی سرخی ایک بوالعجبی ہے کہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا کاروبار بڑھ گیا۔ پوش علاقوں میں کریک ڈائون کی ہدایت۔ اس خبر کا پہلا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسے پڑھ کر ایسے عناصر خبردار اور ہوشیار ہوجائیں گے اور پیشگی ہی اس کاروبار پر کوئی پردہ ڈال لیں گے یا کوئی ایسا انتظام کرلیں گے کہ پکڑے نہ جائیں اور اس طرح اس کریک ڈائون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ اسی طرح ایسی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ مثلاً کراچی میں آج رینجرز کا ریڈ ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے بُری صحافت اور کوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ایسے عناصر کو پیشگی خبردار کرنے ہی کا ایک طریقہ ہے۔ اول تو ایسی ایجنسیوں کو چاہیے کہ اس غیر دانشمندانہ کام سے پرہیز کریں اور اخباری رپورٹرز کو ایسی اطلاعات ہی نہ دیں اور اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو خود رپورٹر حضرات کا فرض ہے کہ معاملات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایسی اطلاعات اپنے اخبارات وغیرہ کو جاری نہ کریں کیونکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے یہ اعلان کیا جائے کہ آج فلاں علاقے میں فلاں واردات ہونے والی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ واردات کرنے والے اس کی بجائے کسی دوسرے علاقے کا پروگرام بنالیں گے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ وارداتیوں کو اس کی بھنک بھی نہ پڑے ،تاکہ وہ موقع پر ہی پکڑے جاسکیں۔
سنہری موقع کا ضیاع
بزرگ سیاستدان اور ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ن لیگ نے ہمیں نظر انداز کیا، اب ہماری باری ہے۔ یہ بات انہوں نے ن لیگ کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں تعاون کی خواہش کے باب میں کہی ۔غیرت اور حمیت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ اسی قسم کا جواب دیتے لیکن شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ن لیگ حکومت میں ہے اور بہت کچھ دے سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس دینے کو بہت کچھ ہے جبکہ ق لیگ کے پاس نہایت قلیل ووٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں اور آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کو تو وہ ہموار کر ہی سکتی ہے حتیٰ کہ صلح کی تمام تر پیش رفت کے باوجود وہ ایم کیوایم کو بھی مرکز میں متعدد وزارتیں وغیرہ دے کر یا ڈپٹی چیئرمین کی پیشکش کرکے اس کی حمایت حاصل کرسکتی ہے اور اس سلسلے میں ن لیگ اور ایم کیوایم کے درمیان اس قسم کے کچھ رابطے ہوئے بھی تھے۔ سو ، ق لیگ کے لیے بہتر تھا کہ اپنی سابقہ کوششوں کے موجب اس موقع کی غنیمت جانتے ہوئے ن لیگ کو مثبت جواب دیتی اور اس طرح اپنی پارٹی میں واپس آجاتی کیونکہ اس کے لیے اس سے اچھا آپشن شاید اور کوئی تھابھی نہیں جبکہ عمران خان نے تو کہہ بھی دیا ہے کہ اگر حکومت جوڈیشل کمشن بنا دے تو سینیٹ کا ووٹ دے دیں گے جبکہ اس کمشن کے لیے کافی پیش رفت پہلے ہی ہوچکی تھی کہ درمیان میں سینیٹ کا الیکشن آگیا اور یہ معاملہ موخر ہوگیا۔
خواب دیکھنے کی آزادی
وزیر جیل خانہ جات سندھ منظور وسان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی کا ہے۔ بہت اچھا خواب ہے اور انہیں ایسے خواب دیکھنا بھی چاہئیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ان کے کئی خواب پہلے بھی غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ بلی کو چھیچھڑوں کے خواب بھی شاید اسی سلسلے کی کڑی ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ پیر صاحب پگاڑا مرحوم کے خواب سچے ہوا کرتے تھے ۔اگر چہ چھوٹے پیر پگاڑا یعنی ان کے صاحب زادے نے ابھی تک ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے، کل کی خبر خدا جانے۔ اس طرح شیخ رشید احمد کے بھی چند ایک خواب درست نکلے تو انہوں نے باقاعدہ پیش گوئیاں شروع کردیں جو یکے بعد دیگرے غلط ثابت ہوئیں، اس لیے اب انہوں نے کوئی پیش گوئی یا خواب بیان نہیں کیا ہے ، تاہم کئی خواب غلط نکلنے کے باوجود وسان صاحب اب بھی کبھی کبھار یہ شوق پورا کرتے رہتے ہیں اور زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کا یہ خواب بس خواب ہی رہے گا، مثبت تعبیر جس کے نصیب میں نہ ہو۔
گورنر پنجاب کی بحث ایک بار پھر
ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت نے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال احمد خاں کو گورنر پنجاب تعینات کرنے کی پیش کش کردی ہے جس پر مشاورت کے لیے انہوں نے وقت مانگ لیا ہے اور سینیٹ الیکشن کی وجہ سے اس سلسلے میں رکی ہوئی چہ مگوئیوںاور
انداوزوں نے اس طرح پھر سے آغاز کردیا ہے جبکہ عطاء الحق قاسمی سے لے کر تہمینہ دولتانہ تک کا فی پیش گوئیاں اب تک گردش کرتی رہی ہیں۔ بیشک گورنر کے عہدے کا نام ذرا بڑا ہے لیکن سپیکر کا بھی کچھ کم نہیں ، تاہم جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے تو گورنر کا دامن اس سلسلے میں کافی تنگ اور خالی ہے جس کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ چودھری سرور نے بھی یہ عہدہ انتہائی غیر تقریباتی انداز میں چھوڑ دیا تھا۔ سپیکر شپ کے حوالے سے کم از کم اتنا تو ہے کہ وہ ارکان اسمبلی پر اپنا حکم چلا سکتے ہیں اور یہ کچھ کم اختیار نہیں ہے اور شاید اسی لیے انہوں نے اس پر سوچ بچار کے لیے وقت بھی مانگ لیا ہے۔ حکومت کے پیش نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سپیکر کا عہدہ خالی ہو تو وہ اس ضمن میں کسی اور گروہ کو اس شاخ زیتون کی پیش کش کرکے چیئرمین سینیٹ کے لیے چند اضافی ووٹ اکٹھے کر لے جس کی ا سے اشد ضرورت بھی ہے اور جس کے لیے دونوں طرف سے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا جارہا ہے۔
آج کا مطلع
کل تک جو یارِ غار تھے اب وہ رقیب ہیں
اس بے وفا دیار کی رسمیں عجیب ہیں