"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور قمر رضا شہزادؔ

حکومت اتفاق رائے کی سیاست
کو فروغ دے رہی ہے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومت اتفاقِ رائے کی سیاست کو فروغ دے رہی ہے‘‘ اور برادرم آصف علی زرداری کی شہرۂ آفاق پالیسی کو رہتی دنیا تک کے لیے دوام بخشنے کی کوشش کر رہی ہے جس کا مزہ گزشتہ دورِ حکومت میں ان کے ساتھ مل کر فرینڈلی اپوزیشن کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تاکہ سب مل کر ایک ہی دسترخوان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں ‘ جبکہ اس بے مثل نظام کے تحت اپوزیشن کا بیج ہی مار دیا گیا تھا تاکہ بلاخوف و خطر عوام کی خدمت کی جا سکے جس میں سابق وزرائے اعظم سمیت جملہ معززین نے بہت نام پیدا کیا اور اب ہم بھی انہی کے روشن نقوشِ پا پر چلنے پر کاربند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کار دوست پالیسیاں بنائی ہیں‘‘ بلکہ اگر انہیں سرمایہ دوست پالیسیاں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ سرمائے کے ساتھ ماشاء اللہ ہماری اپنی لازوال دوستی کی شاید ہی کوئی مثال پیش کی جا سکے جن کے مظاہر کا اندرون و بیرون ملک چشمِ عبرت سے تکارہ کیا جا سکتا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں چینی کمپنی کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی نے ثابت
کردیا کہ انہیں خریدا نہیں جا سکتا... عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے ثابت کردیا کہ انہیں خریدا نہیں جا سکتا‘‘ البتہ اگر کوئی خریدنا چاہتا تو ان خالی پرچیوں کو ضرور خرید سکتا تھا جو ہمارے ارکان بیلٹ باکس میں ڈال آئے تھے اور بیلٹ پیپر واپس لا کر ہمیں تھماتے جاتے تھے کیونکہ ا ن کی خریداری کا امکان تو ہم نے ویسے ہی ختم کردیا تھا کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کے سخت خلاف ہیں جبکہ گھوڑوں کو بکنے سے پہلے ہی نکیل ڈال لی گئی تھی تاکہ وہ اونٹ ہونے کا لطف بھی اٹھا سکیں جو ویسے بھی اسلامی جانور ہے چنانچہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کا راستہ بھی بند کردیا گیا اور ووٹ کی رازداری بھی قائم رہی کیونکہ اس راز کو انہوں نے باہر نکلنے ہی نہیں دیا اگرچہ اس دوران اس کے خلاف کافی شور وغیرہ بھی مچایا گیا جبکہ شور مچانے والے خود ہارس ٹریڈنگ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسی کو نئے پاکستان کا پیش خیمہ سمجھا جائے‘‘ کیونکہ اسی خیمے سے نئے پاکستان کا اونٹ بھی برآمد ہوگا جس کی یقینا کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہوگی۔ آپ اگلے روز نومنتخب ارکان سینیٹ اور ایم پی ایز کو دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کر رہے تھے۔
سینیٹ الیکشن میں جمہوری قدروں
کی فتح ہوئی... شہبازشریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سینیٹ الیکشن میں جمہوری قدروں کی فتح ہوئی‘‘ اگرچہ ہم نے اس سے پہلے ہی قدروں کو کافی حد تک فتح یاب کر رکھا تھا اور پارٹی الیکشن سمیت بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا مذاق ختم کر کے جمہوری قدروں کا بول بالا کر دیا تھا اور عدالتی احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے کیونکہ یہ جمہوری قدروں ہی کا تقاضا تھا کہ جملہ اختیارات موجودہ عوامی نمائندوں کے پاس ہی رہیں اور اس میں بلدیاتی نمائندوں کا گند نہ ڈالا جائے جو کہ ہماری صاف ستھری سیاست کے سراسر خلاف ہے جو ماشاء اللہ اس قدر شفاف ہے کہ ہم جو کچھ بھی خفیہ اور نمایاں طور پر کر رہے ہیں دیکھنے والوں کو صاف نظر بھی آ رہا ہے‘ چنانچہ اللہ پاک سے پوری امید ہے کہ اسی ٹال مٹول میں باقی تین سال بھی بخیرو خوبی گزر جائیں گے اور یہ معززین کچھ آئندہ الیکشن کے لیے بھی پس انداز کر سکیں گے تاکہ جمہوری قدروں کا ڈنکا بجانے کا سنہری موقعہ بار بار اسی طرح حاصل کر کے اپنی عاقبت سنوارتے رہیں جبکہ ویسے بھی ہم سیاست کو عبادت ہی سمجھ کر کر رہے ہیں تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ کچھ آخرت کا سامان بھی ہوتا رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک قومی روزنامہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
قمر رضا شہزادؔ
جو نوجوان شعراء میرے دل کے بہت قریب رہتے ہیں ان میں قمر رضا شہزاد بطور خاص شامل ہے۔ اس کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہوا تو میں نے اسے اپنی توسیع قرار دیا تھا جس کا بعض دوستوں نے بُرا بھی منایا تھا جبکہ میری طرح یہ بھی ایک مضافاتی شاعر ہے اور میں اگر اوکاڑہ سے لاہور آ بسا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرا مضافاتی ہونا اب قصۂ ماضی بن چکا ہے‘ یعنی ؎
ظفرؔ میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری فطرت بیابانی رہے گی
سو‘ قمر رضا شہزاد کی بیابانی فطرت ہی نے اس سے ایسی شاعری کروائی ہے کہ مراکز میں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ میری فرمائش پر اس نے اپنا کافی سارا تازہ کلام بھجوایا ہے لیکن مجھے یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ اس میں اب وہ اگلا سا زور باقی نہیں رہا۔ میں یہ بات اسے بتانا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مجھے عزیز بہت ہے۔ آدمی کے ذہن میں شاعری کا جو فرمہ موجود ہوتا ہے اس میں سے شعر اس وقت تک نکلتا ہی نہیں جب تک وہ اس کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسے اس فرمے کو ذرا مزید کسنے کی ضرورت ہے تاکہ پہلے جیسے نتائج پیدا ہو سکیں۔ اس کے چند شعر ؎
یہی بہت جو اک چراغ بن سکے
میں اس سے بڑھ کے اور کیا بنائوں گا
دو چار ہیں پار اُترنے والے
میں نائو کو بھر نہیں رہا ہوں
تلوار بھی کھینچ لی ہے میں نے
اور وار بھی کر نہیں رہا ہوں
ہر لمحہ گونجتا ہے یہاں رفتگاں کا شور
اب کس کو یاد کیجئے‘ کس کو بھُلایئے
میں روز و شب جسے پیروں تلے کچلتا ہوں
پناہ دے گی کسی دن یہی زمین مجھے
نکلنا چاہتا ہوں اپنی ذات سے
مگر یہ دشت پار ہو نہیں رہا
میں خیر ہوں کہ شر‘ مجھے بتایئے
مرا کہیں شمار ہو نہیں رہا
آج کا مقطع
میں اگر اُس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو‘ ظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں