پچھلے دنوں ہم نے غربت کو دہشت گردی کی بڑی وجہ قرار دیا تھا اور اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ غربت کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ جو وسائل عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام میں لائے جانا تھے وہ کہیں اوپر ہی اوپر ہڑپ کرلیے جاتے ہیں اور عوام کو ان کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی کہ وسائل پر مکمل طور پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جو خود یا ان کے ہوتے سوتے اقتدار پر بھی باری باری قابض رہتے ہیں اور ان کا مقصد خود کو اور اپنے ہی ہم مشربوں کو ان وسائل سے فیض یاب کرنا ہوتا ہے اور یہی طبقات ان وسائل کے ساتھ بھی کھل کھیلتے اور کرپشن کا کوئی بھی وسیلہ یا ذریعہ خالی نہیں چھوڑتے جس میں بیورو کریسی ان کے ساتھ ساتھ شامل ہوتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو تک کرپشن اور خاص طور پر حکومتی حلقوں میں کرپشن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حتیٰ کہ ملک میں فوجی آمر بھی برسراقتدار رہے تو کرپشن کے حوالے سے ان کا بھی کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا جبکہ کرپشن کی ریل پیل جنرل (ر) ضیاء الحق کے دور میں اور اس کے بعد جو نام نہاد جمہوری دور شروع ہوا اس میں ہوئی۔ آغاز میں یہ صرف بریف کیس سے نمودار ہوئی اور پھر حکومت اور اقتدار نے مل کر وہ کرشمے دکھائے کہ خدا کی پناہ۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال کہ شوگر مل لائسنس ایک کروڑ میں دیا جاتا تھا جو آج کے آٹھ دس کروڑ کے برابر ہے ۔حتیٰ کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ ادھر معرکہ کارگل زوروں پر تھا اور دونوں ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک مال گاڑی جو ایک چھوٹے سٹیشن پر ایک ڈبے کے نیچے اترنے سے خراب ہوکر ٹھہری ہوئی تھی پتا چلا کہ اس میں حکمرانوں کی شوگر مل سے چینی انڈیا جارہی تھی!
اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو یہ رسم بدستور جاری رہی حتیٰ کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا یہ کہنا،ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر ہم پیسے نہ بنائیں تو نوازشریف کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ چنانچہ روپے پیسے سے متعلقہ جو بھی فائل ہوتی وہ وفاقی وزیر آصف علی زرداری کی طرف مارک کردیا کرتی تھیں۔ چنانچہ دونوں حاکموں کے اندرون و بیرون ملک اثاثے بھی بنتے گئے، سعودی عرب میں غالباً وہاں کی سب سے بڑی سٹیل مل بھی قائم ہوگئی اور دوسری طرف سرے محل جیسے شاہکار وجود میں آئے۔ جیل سے رہا ہوئے تو مدیر شہیر مجید نظامی نے زرداری صاحب کو مرد حر کا خطاب دیا جس پر میں نے لکھا کہ یہ مرد حر نہیں، مرد پُر ہیں۔
خیر، یہ ایک لمبی کہانی ہے اور یہ سب کچھ ہماری آپ کی آنکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوتا رہا۔ میڈیا پر رپورٹ بھی ہوتا رہا لیکن کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اہم سرکاری عہدوں پر زیادہ تر عزیز و اقارب ہی تعینات ہیں تاکہ اس بہتی گنگا میں اپنے ہی ہاتھ دھو سکیں۔ قانون کی عملداری یہ ہے کہ حکومت کے اپنے ہی بنائے ہوئے کمشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کے بعد نہ صرف یہ کہ کسی کی صحت پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ ذمہ داران میں سے ایک جناب توقیر شاہ کو بیرون ملک کسی منصب پر روانہ کردیاگیا جبکہ صوبائی و زیر قانون کو عہدے سے علیحدہ کردیاگیا لیکن اب انہیں ایک اور وزارت سونپ دی گئی ہے اور لطف یہ ہے کہ میڈیا پر واشگاف ہوجانے کے باوجود جوڈیشل کمشن کی اس رپورٹ کو آج تک دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی جو پنجاب حکومت نے خود تشکیل دیا تھا اور اب اسی کے فیصلے کے خلاف اپیل میں گئی ہوئی ہے۔
عمومی کرپشن کی ایک بڑی مثال یہ کہ سپریم کورٹ کے بار بار کے احکامات کے باوجود صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور اب تک ٹال مٹول اور حیلوں بہانوں سے کام لیا جارہا ہے کیونکہ سب سے بڑا ظلم ہی یہ ہے کہ آئین پاکستان کے برخلاف عوام کو اپنے اس حق سے بھی محروم کیاجارہا ہے جو بلدیاتی انتخابات کے بعد انہیں حاصل ہونا تھے لیکن اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم میں رکاوٹ یہی ہے کہ ارکان اسمبلی ان کے اختیارات سے بھی لطف اندوز ہوتے رہیں اور ان کے حلوے مانڈے کا ایک اور دروازہ کھلا رہے حتیٰ کہ ہر چھوٹے بڑے منصوبے کا سولہ فیصد رکن اسمبلی کے گھر روٹین ہی میں پہنچا دیا جاتا ہے اور جو عین قانونی گردانا جاتا ہے اور پھر جونت نئے مالیاتی سکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں وہ ان سب کے علاوہ ہیں۔
چنانچہ اب سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کی اس زبردست مہم میں کیا اس کے حقیقی اسباب کو بھی مد نظر رکھا جارہا ہے؟ کیونکہ جب تک ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ ختم نہیں کیا جاتا اور لوٹی ہوئی دولت جو عوام سے کھسوٹی گئی ہے، واپس نہیں لائی جاتی، نہ اس ملک سے غربت ختم ہوسکتی ہے نہ دہشت گردی ، سو،اس آپریشن کا ہونا نہ ہونا برابر ہوجائے گا۔ لطیفہ یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت کم و بیش ہرفوجی حکمران نے اقتدار سنبھالتے وقت سب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگایا اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے کیے لیکن جب پائوں اچھی طرح سے جما لیے گئے تو سب کچھ بھلا دیاگیا۔
ہم الطاف بھائی کی طرح مارشل لا کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ فوج کو سول معاملات میں پہلے ہی اتنے اختیارات حاصل ہیں اور جن سے سول حکومت ازخود اور خوشی سے دستکش ہوئی ہے تاکہ اپنی نااہلی پر پردہ ڈال سکے جن میں وزارت خارجہ اور دفاع کے اہم ترین معاملات شامل ہیں تو کسی مارشل لاء کی گنجائش رہ جاتی ہے نہ ضرورت اور جس جھاڑو پھرنے کی باتیں ہورہی ہیں اگر یہ محض باتیں ہیں تو اس سے بڑی بدقسمتی اس ملک اور اس کے مجبور ومقہور عوام کی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ حالت یہ ہے کہ ٹیکس جس سے حکومتیں چلا کرتی ہیں نہ حکومتیں خود ادا کرتی ہیں نہ ان کی منظور نظر اشرافیہ اور ان کے چہیتے بڑے صنعتکار وغیرہ چنانچہ سارا کام کرپشن سے چلایا جارہا ہے جس کا ایک ایک پیسہ عوام کے خون اور پسینے میں لتھڑا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے ذمہ داران اگر ابتدائی طور پر نیب اور ایف آئی اے ہی کو اپنی عملداری میں لے لیں تو احتساب کا یہ معاملہ اپنے آپ ہی رواں دواں ہوسکتا ہے۔
آج کا مطلع
اُس کے گلاب‘ اُس کے چاندجس کی بھی قسمت میں ہیں
آپ ‘ ظفرؔ‘ کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں