دو سال سے خیبر پختونخوا میں نئے پاکستان
کی جھلک نظر نہیں آئی... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دو سال میں خیبر پختونخوا میں نئے پاکستان کی جھلک نظر نہیں آئی‘‘ جبکہ پنجاب میں ہر طرف نئے پاکستان ہی کے جلوے نظر آ رہے ہیں‘ لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہو رہا ہے‘ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے سرچارج لگائے جا رہے ہیں اور چینی تین روپے فی کلو مزید مہنگی ہو گئی ہے۔ مزیدبرآں بہادر پولیس مار مار کر مظاہرین کا بھرکس نکال رہی ہے اور یہ سلسلہ نابینا حضرات سے لے کر کسانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم بہترین خیبرپختونخوا بنائیں گے‘‘ اور جب بھی ہم خود اپنے حالات بہترین کرنے سے فارغ ہوئے‘ اس کے بعد خیبرپختونخوا ہی کی باری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم جو بھی وعدہ کریں گے‘ پورا کریں گے‘‘ اگرچہ انتخابات کے موقعہ پر اور بعد میں کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے بلکہ ان کا الٹ ہی ہو رہا ہے لیکن اس میں بھی ہمارا قصور نہیں بلکہ وعدوں کا ہے جو کم بخت خود ہی پورے نہیں ہوتے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
محیر العقول
پاکستان میں ایل این جی کی پہلی کھیپ پر مشتمل ٹینکر (جہاز) پاکستان میں پہنچ چکا ہے لیکن اس پر ایک پراسراریت کا پردہ چڑھا دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کو متنازع بنا دیا گیا ہے کہ یہ کھیپ حکومت نے درآمد کی ہے یا کسی نجی کمپنی نے کیونکہ نجی کمپنی اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کھلا تضاد ہے جبکہ اس کی قیمت کا تعین اور تقسیم کے طریق کار کے متعلق فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر بریک کی جا چکی ہے کہ کسی مسٹر شہزاد کو قطر میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا ہے جو ایک سابق بینکر ہیں اور سفارتی معاملات کا ذرہ بھر تجربہ بھی نہیں رکھتے جبکہ انہیں اس سارے معاملے کی سربراہی بھی سونپ دی گئی ہے۔ نیز یہ صاحب میاں نوازشریف کے ایک سابق ایڈوائزر کے صاحبزادے ہیں جو خود دبئی میں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ یہ 20 ارب روپے کا منصوبہ ہے جس کے بارے میں کچھ بھی تفصیل سے نہیں بتایا جا رہا‘ شاید اس وجہ سے کہ اس سے کِک بیکس کا راز نہ فاش ہو جائے حالانکہ اس تکلیف کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ میگاپراجیکٹس میں یہ عنصر روزِ اول سے شامل رہتا ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں صدر زرداری کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم نے بھی اس منصوبے میں بہت بھاگ دوڑ کی تھی لیکن چونکہ یہ شفاف نہیں تھا‘ اس لیے سپریم کورٹ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی جبکہ اس کی شفافیت پر سینکڑوں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس لیے اگر اب سپریم کورٹ حسب سابق سوموٹو ایکشن لے کر اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتی تو یہ اس ملک اور اس کے ستم رسیدہ عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔
ٹیکس ہی ٹیکس
الیکٹرانک میڈیا پر بریک کی جانے والی ایک اور خبر کے مطابق گردشی قرضہ (سرکلرڈیٹ) اکٹھا ہونے پر اس کی مالیت 258 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ بجلی کے بلوں کی واجب الوصول رقم 500 ارب تک جا پہنچی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ رقم وصول کر کے اس میں سے سرکلر ڈیٹ کی رقم بھی ادا کردی جاتی لیکن حکومت ایسا نہیں کر رہی کیونکہ اس میں بڑے بڑے نام اور محکمے شامل ہیں‘ حکومت جن کے خلاف بوجوہ ایکشن لینے سے معذور ہے اور اس نے اس کی بجائے سرکلر ڈیٹ اُتارنے کے لیے حسب معمول یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ سرچارج ٹیکس اور گلوبل فنڈ ٹیکس کے نام پر یہ ساری رقم غریب عوام سے وصول کی جائے جو جملہ لائن لاسز کے بل پہلے ہی خود ادا کر رہے ہیں جبکہ وعدے حکومت باندھ رہی ہے اور اس سلسلے میں میڈیا میں کروڑوں کے اشتہارات بھی شائع کروا رہی ہے کہ عوام کو جملہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں‘ مہنگائی کم ہو گئی ہے اور اس طرح حکومت نے 20 ماہ کے اندر ہی اپنے تمام وعدے پورے کرنا شروع کردیئے ہیں... بہ بیں تفاوتِ راہ از کُجاست تا بہ کُجا
کرکٹ میں بھارت کی شکست
سیمی فائنل آسٹریلیا کے ہاتھوں ہارنے پر جہاں بھارت میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے جس کا پورا پورا جواز موجود ہے‘ وہاں پاکستان میں ایک جشن کا سماں ہے۔ خوشیاں منائی جا رہی اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ بھارت سے ہارنے کی خوشی آپ اس وقت مناتے اچھے لگتے ہیں جب وہ آپ کی ٹیم سے ہارے۔ اب جیتا تو آسٹریلیا ہے جس پر ہمارا جشن منانا ایسا ہی ہے جیسے 'جنج پرائی‘ احمق ناچے‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متعدد معاملات پر قومی سطح پر ہمارے بھارت کے ساتھ تنازعات موجود ہیں لیکن وہ حل بھی ہو سکتے ہیں اور موجودہ صورتحال مستقل رہنے والی نہیں۔ اور‘ یہ ٹینشن بھی زیادہ تر دونوں حکومتوں ہی کی سطح پر ہے جسے رفع کرنے کی ٹھوس کوششیں بھی ہو رہی ہیں جبکہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے تقسیم سے پہلے کیا کرتے تھے اور بالآخر اس کے اظہار کے مواقع بھی آ کر ہی رہیں گے کیونکہ اسی میں دونوں ملکوں کا فائدہ بھی ہے‘ کہ آخر دو ہمسایہ ملک کب تک ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما رہیں گے؟
آج کا مطلع
سبزۂ گلزار پر چُوما ہے جس کو خواب میں
زندگی کا زہر تھا اُس گوہرِ نایاب میں