قوم کرپٹ عناصر کے خلاف اُٹھ
کھڑی ہو... صدر ممنون حسین
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''قوم کرپٹ عناصر کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو‘‘ واضح رہے کہ حکمرانوں کے بیانات کی طرح یہ بھی محض ایک بیان ہی ہے اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قوم کرپٹ عناصر کے خلاف واقعی اُٹھ کھڑی ہو کیونکہ یہ تو اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا اور نہ ہی قوم ان کے خلاف اُٹھ کھڑی ہونے کے لیے تیار بیٹھی ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا کرنا ہوتا تو وہ اس کے لیے کب کی اُٹھ کھڑی ہوتی کہ وہ اندھی نہیں ہے اور سب کچھ دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے؛ چنانچہ اس کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ آیا اس نے دھنیا پی رکھا ہے یا بھنگ۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن کے باعث معاشرے پر کاہلی طاری ہو گئی ہے‘‘ حالانکہ اس سے معاشرے پر چُستی اور چالاکی طاری ہونی چاہیے تھی کیونکہ پیسہ تو ویسے بھی آدمی کو چاق و چوبند کر دیتا ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ ہر بات کا الٹا ہی اثر لیتا ہے‘ اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ معاشرہ ہر چیز کی تاثیر کے مطابق اس کا صحیح اثر لے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک ستم ظریفی
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس پر ایک کروڑ سے زائد کا خرچہ اٹھتا ہے جبکہ اراکین کی اکثریت حاضری لگا کر غائب ہو جاتی ہے‘ پنجاب حکومت اپنے اتحادیوں سمیت واضح اکثریت کی حامل ہونے کے باوجود اکثر اوقات کورم کی کمی کا شکار رہتی ہے اور سپیکر کو اس کے لیے باربار گھنٹیاں بجانا پڑتی ہیں اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی کی صورت حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس بارے سپیکر اس کی اطلاع دینے کے بھی روادار نہیں ہیں جو کہ پچھلے دنوں ایک شہری نے سپیکر قومی اسمبلی کو درخواست دی کہ بتایا جائے کہ ارکان کی کتنی تعداد اسمبلی میں آتی ہے لیکن سپیکر نے کہا کہ یہ کلاسی فائیڈ معاملہ ہے اور اس کی اطلاع نہیں دی جا سکتی اور یہ سپیکر ایاز صادق کی باقاعدہ رولنگ تھی۔ لیکن درخواست دہندہ کا مطالبہ تھا کہ اطلاع حاصل کرنا قانوناً اس کا حق ہے تو یہ رولنگ آخری فیصلے کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردی گئی۔ سو‘ جہاں صورتِ حال یہ ہو‘ وہاں ان خواتین و حضرات کا شُتر بے مہار ہونا باآسانی سمجھ میں آتا ہے۔
لائق تقلید مثال
سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار نے ایک درخواست خارج کرتے ہوئے‘ جس میں استدعا کی گئی تھی کہ وزیراعظم اور گورنر حضرات جن محلات میں رہتے ہیں‘ ان پر پابندی لگائی جائے‘ یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک اداروں ہی سے چلتے ہیں اور اس بارے میں فیصلے کرنا قانون سازوں ہی کا حق ہے۔ اس سلسلے کی سب سے زیادہ قابلِ ذکر اور قابلِ ستائش بات ان کا وکلاء و حاضرین عدالت سے کہنا ہے کہ ان کے عدالت میں آنے پر کھڑے نہ ہوا کریں اور وکلاء انہیں مائی لارڈ بھی نہ کہا کریں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جو عزت انہیں اللہ نے دے رکھی ہے وہ ان کے لیے کافی ہے اور ان باتوں سے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہو جاتا اور نہ ہی انہیں ایسے کسی اضافے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انگریز کے زمانے کی علامتیں ہیں جو اس قدر رواج پا چکی ہیں کہ اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں اور بہتر ہے کہ ان سے جلد از جلد گلوخلاصی حاصل کی جائے جبکہ یہ بات دوسرے جج صاحبان کے لیے بھی قابل تقلید ہے جس سے عدلیہ کی وسیع القلبی ظاہر ہوتی ہے۔
لگژری گھر یا شراب خانے؟
ایک اور اطلاع کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے پوش علاقوں کے لگژری گھروں میں شراب کے بار رومز کھل چکے ہیں جس کا انکشاف کسٹمز اینٹی سمگلنگ کی طرف سے ڈیفنس کی دو کنال کی ایک کوٹھی پر چھاپہ مارنے کے بعد کیا گیا ہے جہاں کروڑوں روپے سے زائد مالیت کی شراب کی 600 بوتلیں برآمد کر کے ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ دوران تفتیش ملزم نے لاہور میں غیر ملکی شراب کی فروخت اور ترسیل کے نیٹ ورک اور بااثر خریداروں کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں‘ اور جس پر شہر میں وسیع پیمانوں پر چھاپوں کی تیاری کی گئی ہے۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ چھاپوں سے قبل ان کی خبر چلا دینے کا صاف مطلب ایسے عناصر کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ خبردار ہو جائیں اور ان اشیاء کو چھاپے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیں۔ پچھلے سال یہ خبر دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی جس کے مطابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے ارکان اسمبلی کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر سے بوریاں بھر کر شراب کی خالی بوتلیں برآمد کی تھیں لیکن ان کی یہ محنت رائگاں ہی گئی کیونکہ اس پر کسی نے کوئی ایکشن نہ لیا تھا۔
آج کا مطلع
بے مقصد و بے فائدہ زحمت ہی کیے جائیں
لازم تو نہیں ہے کہ محبت ہی کیے جائیں