اقربا پروری وہ واحد فن ہے جو ہم نے موجودہ حکومت سے سیکھا ہے اور جس کے تحت ہم نے اوکاڑہ سے مسعود احمد کی تازہ شاعری منگوائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی توپ قسم کی شاعری نہیں ہے اور نہ ہی مسعود احمد کوئی توپ شاعر ہیں۔ اگرچہ ان کا ڈیل ڈول اور شخصیت کسی توپخانے سے کم بھی نہیں ہے۔ املا کی غلطیوں میں ان کے مصاحب اور ہمارے شاعر دوست اے جلیل اُن کا ہاتھ بٹاتے ہیں‘ اگرچہ موصوف خود بھی اس میں کافی طاق واقع ہوئے ہیں یعنی زبان کو کچھ زیادہ خاطر میں نہیں لاتے البتہ الفاظ ان کے آگے دست بستہ ضرور رہتے ہیں اور رحم و رعایت کے طلبگار بھی۔
چنانچہ اس تمام تر لااُبالی پن کے باوجود موصوف شعر کو شعر بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں جبکہ یارلوگ تو بالعموم اتنا تردد بھی روا نہیں رکھتے۔ سادہ اور سلیس زبان میں شعر کہتے ہیں اور قاری کو کسی امتحان میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی خود کسی امتحان میں پڑنا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے قرب و جوار میں جس طرح کی شاعری عام طور سے اور کثیر مقدار میں تخلیق کی جا رہی ہے‘ اس سے یہ شاعری آپ کو یقینا بہتر لگے گی اور آپ محسوس کریں گے کہ یہ شاعری پڑھتے ہوئے آپ کسی مشقت سے نہیں گزر رہے جبکہ یہ اپنی شاعری کو اپنی شخصیت ہی کی طرح مزیدار بنانے کی بھی سعی کرتے ہیں۔ یہ شاعری پڑھ کر آپ کو غصہ نہیں آئے گا اور اگر آیا بھی تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہوگا کہ آپ اُسے آسانی سے پی جائیں۔ جبکہ غصہ کھانا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ لیجیے‘ اب آپ کا امتحان شروع ہوتا ہے:
دل میں اتنا دھواں بھرا ہوا ہے
آنکھ تک یہ کنواں بھرا ہوا ہے
دل کسی وقت پھٹ بھی سکتا ہے
اس میں آتش فشاں بھرا ہوا ہے
میرے دریا سوال کرتے ہیں
ان میں پانی کہاں بھرا ہوا ہے
اک خوشی دوڑ رہی ہے مرے آگے پیچھے
پیچھا کرتا ہے کوئی خوف لگاتار مرا
سانس اُجڑے ہوئے خیموں کی طرح اکھڑی تھی
راستہ روکتی کیسے کوئی دیوار مرا
یہ اچانک گر بھی سکتا ہے زمیں کے ہاتھ سے
آسماں سارے کا سارا خاک کی مٹھی میں ہے
میں زمانوں سے اسی کے قبضۂ قدرت میں ہوں
وہ ستارہ جو ابھی افلاک کی مٹھی میں ہے
تُرپ کے پتے کی صورت کھیل سکتا ہے مجھے
سادگی میری اُسی چالاک کی مٹھی میں ہے
کورا رہنے نہیں دیا اس کو
لکھ کے کورا جواب کاغذ پر
تیرے چہرے میں رنگ بھرتے ہوئے
کھِل اُٹھے تھے گلاب کاغذ پر
روشنی کی طرح بکھرتی ہے
حرف کی آب و تاب کاغذ پر
آغاز سے پہلے کبھی انجام سے پہلے
سو کام نکل آتے ہیں اُس کام سے پہلے
آسانی سے کب خاک میں آسودہ ہوا ہوں
سو رنج اٹھانے پڑے آرام سے پہلے
اشک بے تاب ہو کے نکلا ہے
آنکھ سے خواب ہو کے نکلا ہے
دستارِ فضیلت نے دبا رکھا ہے سر کو
مشکل سے بہت ہم نے اٹھا رکھا ہے سر کو
دروازہ کسی اور کا مقصود تھا‘ لیکن
چوکھٹ پہ کسی اور گرا رکھا ہے سر کو
مثبت ہے کہ منفی‘ ابھی معلوم نہیں ہے
دونوں ہی طرح ہم نے ہلا رکھا ہے سر کو
نوٹ: گزشتہ روز کے کالم میں میرا ایڈریس سہواً 294 ایل لکھا گیا ‘ جبکہ یہ 284 ایل ماڈل ٹائون ہے۔ احباب نوٹ فرمالیں!
آج کا مطلع
میرے دل میں محبت بہت ہے
اور‘ محبت میں طاقت بہت ہے