کالم چھپا تو برادرم محمد حمید شاہد کا فون آیا کہ کتاب کا پہلا افسانہ جیسے بھی ہو ضرور پڑھ کر مجھے اپنی رائے دیں۔ میں نے کہا کہ میں تو افسانے کا باقاعدہ قاری بھی نہیں ہوں، اس کے بارے میں میری رائے کیونکر صائب ہوسکتی ہے۔ منقول ہے کہ تحصیلدار نے ڈپٹی کمشنر سے سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ میری ناقص رائے میں نمبرداری کے عہدہ کے لیے فلاں آدمی زیادہ مناسب ہے، جس پر ڈپٹی کمشنر نے لکھا کہ آپ کی رائے واقعی ناقص ہے، اس لیے میں اس کی بجائے فلاں آدمی کو نمبردار مقرر کرتا ہوں۔ سو، امید ہے کہ میری رائے کے بارے میں صاحب موصوف کو پوری پوری سمجھ آگئی ہوگی۔
سو، جناب۔ میں پہلا افسانہ پورا پورا پڑھ گیا۔ میری طرح شاہد صاحب بھی تجربات کرنے کے شوقین ہیں۔ اس لیے انہیں تجربہ کار بھی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم میری توقعات بلکہ خدشات کے برعکس افسانے میں ایسا کوئی گنجھل نہیں تھا اور رواں دواں انداز میں یہ ایک سیدھا سادہ افسانہ نکلا۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کالم میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ افسانے کا کام یہ ہے کہ وہ ساتھ ساتھ قاری کو قائل بھی کرتا جائے اور مصنف قاری کو‘ جو آج کل کافی ہوشیار ہوچکا ہے ، بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرے۔ میرا زور اس بات پر ہے کہ افسانے کو تعقلاتی منطقے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔
افسانہ بہت اچھا ہے بلکہ یہ مزید بھی اچھا ہوسکتا تھا اگر یہ منطق کے اصولوں سے اس قدر باہر نہ نکلتا۔ میری مراد افسانے کے آخری حصے سے ہے جو ایک طرح کا کلائمیکس بھی ہے اور اسے عمداً نہایت ٹریجک بنا دیاگیا ہے اور جس کا انحصار سراسر مصنف کی مرضی اور ارادے پر ہے اور جسے یوں بیان کیاگیا ہے کہ اس میں پندرہ سالہ لڑکے کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے ایک پولیس والا گولی مار کر ہلاک کردیتا ہے اور یہی اس ساری گڑبڑ کی وجہ بھی ہے کیونکہ افسانے میں درج دیگر تفصیلات سے پولیس والے کا یہ اقدام لگا نہیں تھا۔
توقیر (نوجوان مذکور) کے بارے میں مصنف بتاتے ہیں کہ مرنے والا اپنی زندگی میں بھی زندوں میں تھا ہی کہاں ، آٹھ دس سال کا ہوگا کہ اس کی گردن ایک طرف کو مڑ گئی اور وہ ڈھنگ سے بول نہیں سکتا تھا۔ توقیر کی شخصیت کے بارے مزید بتاتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ ایک رات وہ اٹھا تو اس کی گردن بخار سے ٹوٹ رہی تھی۔ اسے ہسپتال لے جایاگیا۔ کئی ٹیسٹ ہوئے۔ علاج ہوتا رہا مگر وہ گردن سیدھی رکھنے کے قابل نہ ہوسکا۔ چلتا تو سر سے پیر تک جھٹکے کھاتا۔ بولتا تو زبان میں تتلاہٹ آجاتی۔ بات کرتے کرتے بھول جاتا اور کبھی کبھی ایک بات کو دوسری میں ملادیتا، وغیرہ۔
وہ لکھتے ہیں کہ جب اس کی لاش لائی گئی تو اس ننھے بدن پر خون میں تر ایک ڈھیلی ڈھالی جیکٹ تھی۔ اسے ماسٹر صاحب نے حج پر جانے سے قبل لنڈا بازار سے اس لیے خریدا تھا کہ اس کی جیبوں میں پاسپورٹ، دعائوں کی کتابیں اور کرنسی سب کچھ رکھا جاسکتا تھا۔ ننھے توقیر نے اس کی جیبوں میں اپنے کھلونے بھر لیے تھے۔ ایک چادر سر پر باندھی اور اس کا پلو پیچھے لٹکنے دیا اور ہاتھ میں وہ کھلونا پستول اٹھا لیا جو باپ نے پچھلے سال امریکہ سے بھیجا تھا۔ وہ یہ خیال کرکے ہی خوش ہو رہا تھا کہ لوگ اس سے ڈر کر بھاگیں گے۔ اس نے باہر نکلتے ہی ادھر ادھر دیکھا اوربھاگتے ہوئے بازار کی طرف ہولیا، وہ کہتا جاتا تھا میں پھٹ جا ااائوں دا‘ میں پھٹ جائوں دااا... اس کے پیچھے ایک شور مچ گیا۔ خودکش آگیا۔ خودکش آگیا... سپاہی چوکنا ہوگیا کہ اس عمر کے لڑکے دھماکے سے پھٹ جایا کرتے تھے۔ وہ اگلے ہی لمحے پولیس والے کی طرف لپک رہا تھا۔ پولیس والا واقعی خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اس نے بوکھلا کر بندوق سیدھی کی اور ٹریگر دبا دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک لڑکا جو چلتے ہوئے جھٹکے کھاتا تھا۔ اس کے منہ سے رال بہتی تھی، اس کی زبان میں بھی تتلاہٹ تھی۔ بیشک اس کے ہاتھ میں کھلونا پستول تھا لیکن کیا ان حالات میں پولیس والا واقعی اسے خودکش سمجھتے ہوئے اس سے اتنا خوفزدہ ہوا کہ اس نے اس پر گولی چلادی۔ اگر اس نے جیکٹ بھی پہنی ہوئی تھی تو وہ قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی۔ کیا کوئی خود کش بمبار قمیض کے اوپر بھی جیکٹ پہنتا ہے اور کیا وہ اس کا اعلان بھی کرتا ہے کہ وہ پھٹ جائے گا، اور وہ بھی توتلی آواز میں ؟ جبکہ وہ ہر طرح سے بظاہر ایک معذور لڑکا تھا۔ پھر، یہ کہ خودکش بمبار پھٹنے سے پہلے نعرہ تکبیر لگاتے ہیں، توتلی آواز میں یہ نہیں کہتے کہ میں پھٹ جاااائوں دا، چنانچہ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی۔ نہ ہی کوئی احمق سے احمق پولیس والا ان حالات میں پہلے خبردار کرنے یا ہاتھ کھڑے کروانے یا ہوائی فائر کرنے کی بجائے اسے سیدھا گولی مار سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ محض میری عقل کا فتور ہو!
آج کا مطلع
وصل کا رنگ جمایا نہیں جاتا مجھ سے
یہ وہ کھانا ہے جو کھایا نہیں جاتا مجھ سے