چودھری نثار علی خان
یادش بخیر‘ ہمارے کرم فرما‘ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کیا خوب کہا ہے کہ ایف آئی اے کرپشن نہیں پکڑ سکتی تو یہ ادارہ بند کردیا جائے۔ بڑے کرپشن کیسز جوں کے توں پڑے ہیں‘ ایف آئی اے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ مجھ سے پوچھا ہی نہیں جاتا اور تحقیقات تبدیل کر دی جاتی ہے۔ غالباً ان کا اشارہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف ہونے والی 17 ارب کی تحقیقات کی طرف تھا‘ جس کے لیے کچھ عرصہ پہلے موصوف نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے درخواست کی تھی کہ اس سے ان کی جان چھڑوائی جائے‘ جس پر تفتیشی ہی کو تبدیل کردیا گیا اور جس پر وزیرداخلہ نے اس ایڈیشنل سیکرٹری کو مبینہ طور پر یاد دلایا کہ ایف آئی اے ان کے ماتحت ہے اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کی ہدایت پر‘ اور ان کی اجازت کے بغیر کوئی تحقیقات تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ کہتے ہیں کہ چودھری صاحب کے والد گرامی نے ایک بار بتایا تھا کہ جس بیٹے کو میں سیاستدان بنانا چاہتا تھا وہ جرنیل بن گیا اور جسے جرنیل بنانا چاہتا تھا وہ سیاستدان؛ چنانچہ لگتا ہے کہ چودھری صاحب کی جرنیلی روح اکثر بیدار رہتی ہے۔ اسمبلی بلکہ کابینہ کے اجلاس میں بھی اپنی مرضی سے آتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو اکثر اوقات وزیراعظم کے ہمرکاب نہیں‘ بلکہ الگ سے ہی آتے ہیں اور وزیراعظم سے ان کے ناراض ہونے کی خبریں گرم ہی رہتی ہیں جبکہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے سعودی دوروں میں بھی وہ ہمراہ نہیں تھے‘ حتیٰ کہ چینی صدر کی پارلیمنٹ میں تشریف آوری پر بھی کافی تاخیر سے منصۂ شہود پر دکھائی دیے؛ چنانچہ جب کبھی وہ اچھے موڈ میں تشریف لائیں تو سنا ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں؛ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ موصوف نے گیلانی صاحب کے تفتیشی کا تبادلہ منسوخ کردیا ہے یا یہ خالی شوکا شاکی ہی تھی! نیز‘ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وزیراعظم ایک سابق وزیراعظم کی کرپشن کا پردہ کیسے چاک کر سکتے ہیں کیونکہ گیلانی صاحب نے ان سے یہی بات کہی ہوگی کہ حسب روایت اگلی باری ان کی ہے اور ایسا نہ ہو کہ وہ بھی ان کے خلاف فائلیں کھلواتے پھریں‘ یعنی اپنا نفع نقصان سوچ لیں! جبکہ چودھری صاحب کی جرنیلی نے بھی یہاں اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا ہوگا جبکہ موصوف کے گیلانی صاحب کے ساتھ اپنے بھی دیرینہ اور ذاتی تعلقات ہیں اور وہ اکٹھے کام بھی کرتے رہے ہیں‘ اور اُن کا خیال ہو کہ وہ یہ تفتیش خود تبدیل کرتے‘ لیکن وزیراعظم اوپر سے پڑ گئے!
زرداری اِن ایکشن!
مفاہمت اور اس کی طویل تاریخ اپنی جگہ‘ لیکن آخر زرداری صاحب نے بھی اپنی سیاست کرنی ہے اور اس کے لیے ایک صاف اور سیدھا مؤقف بھی اختیار کرنا ہے کہ اوپر سے بلدیاتی انتخابات بھی ظہور پذیر ہونے والے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے اگلے روز اپوزیشن لیڈروں کی اے پی سی اپنی صدارت میں بلاول ہائوس اسلام آباد میں بلوائی اور متفقہ طور پر چند اہم فیصلے بھی کیے اور اس طرح حکومت سے پاک چائنا اقتصادی راہداری کے روٹ سمیت چین کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر وضاحت مانگی گئی ہے اور ان میں شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔ نیز یہ کہ سعودی عرب سے واپسی پر تحفظات دور کیے جائیں اور جملہ میگاپروجیکٹس پر چھائی ہوئی دھند کو صاف کیا جائے۔
جہاں تک اقتصادی راہداری کے روٹ کا تعلق ہے تو ہمارے دوست چودھری احسن اقبال سمیت متعدد نواز لیگی وزراء اور رہنما بتکرار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس کے اولین روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی لیکن اس کے باوجود کے پی اسمبلی سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے اس موضوع پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ خدشات بعد میں درست نکلتے ہیں تو اس کے معترضین آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور حکومت کا جینا حرام کر دیں گے‘ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے یا اس مسئلے پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے گریز کرے۔ ایسا رویہ خود اس کے لیے بسیار نقصان رساں ثابت ہوگا اور اسے یقینی طور پر چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی تصور کیا جائے گا جس کی حکومت پہلے ہی عادی ہو چکی ہے۔
جہاں تک ان معاہدوں کے شفاف ہونے کا تعلق ہے تو خود حکومت کے لیے یہ بات باعث صد تشویش ہوگی کہ اقتصادی راہداری سمیت جملہ اہم پروجیکٹس حکومت کے ہاتھ میں دینے کی بجائے خود حکومت چین ان پر عملدرآمد کرے گی اور سب کچھ اپنی نگرانی میں خود کروائے گی کیونکہ ان میں وہ کسی بھی طرح کی تاخیر یا کوتاہی برداشت نہیں کر سکتی کہ اس میں اس کے اپنے مفادات خود پاکستان سے بھی زیادہ ہیں اور اس لیے وہ یہ راہداری وغیرہ پاکستانی ٹھیکیداروں اور ٹھیکے دینے والوں کے سپرد کرنا افورڈ ہی نہیں کر سکتی؛ البتہ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پروجیکٹس جو ساہیوال اور جہلم میں نصب کیے جا رہے ہیں‘ ان کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ساری دنیا‘ بلکہ خود چین میں بھی یہ سارے پروجیکٹس بند کر دیے گئے ہیں کہ ان سے نکلنے والی گیس سے وہاں لاتعداد اموات واقع ہوئی ہیں۔
آج کا مطلع
اس کا انکار بھی حق میں تھا سراسر میرے
یہ جو حالات ہوئے جاتے ہیں بہتر میرے