فیصل آباد سے مقصود وفاؔ کا شعری مجموعہ تالیف موصول ہوا ہے جس کے ساتھ ہی اسی شہر کے دیگر دوستوں کے یہ اشعار بھی یاد آئے:
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ، مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
(استاد ریاض مجید)
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اُس بیوفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
(اشرف یوسفی)
بے جان پڑا دیکھتا رہتا تھا میں اُس کو
اک روز مجھے اُس نے اشارے سے اٹھایا
(انجم سلیمی)
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
(ثناء اللہ ظہیر)
میں پتھر میں بڑے آرام سے تھا
تری ٹھوکر سے باہر آ گیا ہوں
(علی زریون)
جو تجھے پیش کرنا چاہتا تھا
پھول وہ ہاتھ پر کھلا ہی نہیں
(ضیا حسین ضیاؔ)
زمین ٹھیک ہے اور آسماں مناسب ہے
جو تو یہاں ہے تو پھر یہ جہاں مناسب ہے
(عمّاد اظہر)
میرے پسندیدہ شاعر مقصود وفاؔ کا یہ مجموعہ اس کی دو کتابوں ''درِ امکان‘‘ اور ''علاحدہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ اور سب سے ا چھی بات یہ ہے کہ اسے پیپر بیک میں چھاپا گیا ہے۔ فی زمانہ جب کہ شاعری پڑھنے کے لیے لوگوں کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے اور اسی لیے شعری مجموعے بکتے بھی نسبتاً کم ہیں اور ناشر حضرات شاعری کی کتابیں کچھ رغبت سے شائع بھی نہیں کرتے‘ تو اس صورت میں پیپر بیک ہی میں شعری مجموعے کا شائع ہونا زیادہ مناسب ہے کہ اس میں قیمت بھی کم ہوتی ہے اور کتاب خریدتے وقت زیادہ سوچنا بھی نہیں پڑتا۔
یہ صاف ستھری اور ہلکی پھلکی کتاب شمع بکس اور ہیلو بکس فیصل آباد کے تعاون سے شائع کی گئی ہے اور کوئی ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت 180 روپے رکھی گئی ہے جسے مزید کم بھی کیا جا سکتا تھا تاکہ یہ خوبصورت شاعری زیادہ سے زیادہ قارئین
تک پہنچتی۔ اس کی ایک دلچسپ خصوصیت یہ بھی ہے کہ ٹائٹل پر شاعر کی تصویر تین حصوں میں تقسیم کر کے چھاپی گئی ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ شاعر کی شخصیت ویسے بھی ایک سے زائد حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ مقصود وفا پیشے کے لحاظ سے ایک سینئر بینکر ہیں اور شاید ہندسہ شماری میں اپنی مہارت کی وجہ سے ہی انہوں نے اشعار کے انتخاب میں بھی نپا تُلا انداز برقرار رکھا ہے۔ یعنی اس کتاب میں بھرتی کا شعر شاید آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ ذمہ دار شعراء کے ذہن میں قدرتی طور پر جو فرما فٹ ہوتا ہے‘ جس سے تخلیقِ شعر کے وقت شعر اُس میں سے نکلتا ہی نہیں جب تک کہ وہ اس کے معیار پر پورا نہ اُتر رہا ہو۔
اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی شاعری بھی پیپر بیک ہی ہے یعنی سیدھی‘ صاف اور سلیس۔ الفاظ کے انتخاب میں نہ خود امتحان میں پڑتے ہیں اور نہ اس میں قاری کو ڈالتے ہیں۔ کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی بیگم کے نام کیا ہے اور میرے سمیت اکثر شعراء اپنا ایک آدھ مجموعہ اپنی اہلیہ کے نام ضرور معنون کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ممکن حد تک اس کی شکی نظروں سے محفوظ رہا جا سکے۔ ویسے بھی‘ ہماری دوست‘ شاعرہ اور نقاد شاہین مفتی کے بقول کوئی شاعر شریف نہیں ہوتا۔ اب اس کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں:
مجھ کو تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کیا ہوں‘ ٹوٹتا کیا ہے
اس نے دنیا سے بھی بڑھ کر اسے برباد کیا
کام سونپا تھا جسے دل کی نگہبانی کا
ہمیں اگلی بہاروں میں گُلوں کے ساتھ آنا ہے
سو ہم کو ان خزائوں میں خس و خاشاک ہونے دے
ایک پل بھی کہاں گزرتا تھا
اک زمانہ مگر گزار دیا
لفظ میں لطفِ معانی کے سوا بھی کچھ ہے
اس کہانی میں کہانی کے سوا بھی کچھ ہے
یوں تو رہے ہو تم بھی صفِ دشمناں میں‘ دوست
لیکن تمہیں شمار نہیں کر رہا ہوں میں
تیری طرف بھی آئوں گا اے فرصتِ خیال
چھوٹا سا ایک کام کہیں کر رہا ہوں میں
کھلنے لگی ہے اس کی طبیعت ذرا ذرا
اُس پر شراب جیسا اثر کر رہا ہوں میں
یوں بھی خاصیتِ اشیا کا پتا چلتا ہے
ریت پر چلتا ہوں‘ دریا کا پتا چلتا ہے
ہوتے ہوتے تری راہوں کی خبر ہوتی ہے
چلتے چلتے تری دنیا کا پتا چلتا ہے
مجھ کو سننا تھا کسی اور زمانے نے وفاؔ
میں کسی اور زمانے میں صدا دینے لگا
وقت بہا کر لے جاتا ہے نام نشان مگر
کوئی ہم میں رہ جاتا ہے اور کسی میں ہم
اپنی گم گشتہ تمنا کا نشاں میں بھی نہیں
اُس جگہ آ کے رُکا ہوں کہ جہاں میں بھی نہیں
آج کا مقطع
ظفر‘ جانے کی جلدی تھی کچھ اتنی
کہ پیچھے رہ گیا سامان سارا