"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور کچھ آوارہ اشعار

پیپلز پارٹی نے عوام کو ہمیشہ نوکریاں دیں... مخدوم سید احمد محمود
پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی نے عوام کو ہمیشہ نوکریاں دیں‘‘ اگرچہ یہ نوکریاں زیادہ تر فروخت کی گئیں اور خاص طور پر سندھ میں تو نوکریوں کا گھڑمس اب بھی صاف نظر آ رہا ہے اسی طرح سٹیل ملز وغیرہ میں بھی نوکریاں تھوک کے حساب سے دی گئیں‘ حتیٰ کہ ایسے ادارے بند ہونے کے قریب جا پہنچے۔ اگرچہ نوکریاں بیچنے پر اعتراض کیا جا رہا ہے لیکن کسی دوسری جماعت کو تو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کیونکہ ادارے تو چلتے ہی رہتے ہیں اور بعد میں نجکاری کی ذیل میں بھی آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اس کے برعکس نواز حکومت نے اپنے ہر دورِ حکومت میں انہیں نوکریوں سے برخواست کیا‘‘ حالانکہ یہ نوکریاں بہت مہنگی خریدی گئی تھیں لیکن ان کی حکومت نے اس کا بھی لحاظ نہ کیا اور پارٹی کو برسرِ اقتدار آ کر طوعاً و کرہاً دوبارہ پیسے لے کر انہیں بحال کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمرانوں کی یہ رسم بن چکی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم یا غریب سر اٹھا کر نہ چلے‘‘ جبکہ ہم نے اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت کم از کم خود تو سر اٹھا کر چلنا شروع کیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ٹریڈ یونینز کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
مستقبل کی سیاست
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے کہا ہے کہ عمران خان قوم سے جھوٹ بولنے پر معافی مانگیں۔ اُدھر عمران خان بھی آئے روز ایم کیو ایم اور الطاف بھائی کے خلاف گرما گرم بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جبکہ ابھی تک ضمنی الیکشن این اے 246 کے آفٹر شاکس بھی جاری و ساری ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ سیاست کا باوا آدم سب سے نرالا ہوتا ہے جس میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور ان جماعتوں کے موسم وقفے وقفے سے مسلسل بدلتے رہتے ہیں جبکہ یہ ان کے مفادات کا بھی تقاضا ہوتا ہے۔ ایک زمانے کے دشمن دوسرے زمانے میں بغل گیر بھی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف واحد جماعتیں ہیں جو کم و بیش ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور اس اشرافیہ اور جاگیردار مافیا کے خلاف ہیں جس نے ملکی سیاست کو ایک عرصۂ دراز سے اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ دونوں کا چونکہ ایک فطری اتحاد بھی بنتا ہے اس لیے زیادہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ نہ صرف اگلے انتخابات تک دونوں کو ایک دوسرے کا معاون بننا ہوگا بلکہ اس اپوزیشن اتحاد کا بھی حصہ ہونا ہوگا جس کے امکانات ہوائوں میں گردش کر رہے ہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ یہ اپنی توپوں کا رُخ موڑ کر دوراندیشی کا ثبوت دیں کیونکہ ان کا دشمن ایک ہی ہے جس کے خلاف یہ برسر پیکار ہیں اور اپنی اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف خرچ اور ضائع نہ کریں۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
آوارہ ا شعار کے دو نمونے
کافی عرصے کے بعد محبی صابر ظفر کے چند خوبصورت اشعار ہاتھ لگے ہیں جو جناب ذاکر حسین ضیائی نے ایس ایم ایس پر جاری کیے ہیں اور ایسے کام وہ اکثر کرتے ہی رہتے ہیں کہ یہ بھی ایک صدقۂ جاریہ ہے؛ چنانچہ آپ کی تفننِ طبع کے لیے پیش خدمت ہیں:
دن کو مسمار کیا‘ رات کو تعمیر ہوئے
خواب ہی خواب فقط روح کی جاگیر ہوئے
عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا
جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے نہ تحریر ہوئے
یہ الگ دکھ ہے کہ ہیں تیرے دکھوں سے آزاد
یہ الگ قید ہے ہم کیوں نہیں زنجیر ہوئے
دیدہ و دل میں ترے عکس کی تشکیل سے ہم
دھول سے پھول ہوئے‘ پھول سے تصویر ہوئے
کچھ نہیں یاد کہ شب رقص کی محفل میں‘ ظفرؔ
ہم ہوئے کس سے جُدا‘ کس سے بغل گیر ہوئے
محمد افضل صاحب نے لاہور کینٹ سے اپنے اشعار بھجوائے ہیں۔ یہ صاحب ہماری ہی طرح کافی بدخط بھی واقع ہوئے ہیں‘ شاید اسی لیے کچھ شعر ہم پڑھنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ نمونتاً پیش ہیں:
زمیں پر ایسا کیا میں چاہتا ہوں
جو زیرِ آسماں ممکن نہیں ہے
مجھے کرنا ہے کچھ ایسا یہاں پر
بظاہر جو یہاں ممکن نہیں ہے
میں جس عالم میں ہوں افضلؔ، مجھے کیا
فلاں ممکن‘ فلاں ممکن نہیں ہے
ظروف اس بار اُتریں گے انوکھے
کہ چاک اُلٹا گھمایا جا رہا ہے
اُچک لیتا ہے غیبی ہاتھ بڑھ کر
کوئی شے بھی اِدھر رکتی نہیں ہے
اُڑتے ہیں تتلی تتلی
لفظ کتابوں سے باہر
نکلا جاتا ہے‘ افضلؔ
سب کچھ ہاتھوں سے باہر
آج کا مقطع
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر‘ ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں