پہلی بار جمہوریت ڈلیور
کر رہی ہے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''پہلی بار جمہوریت ڈلیور کر رہی ہے‘‘ یعنی ہمارے دوبار کے جمہوری ادوار میں ایسا نہیں ہو سکا تھا کیونکہ ہماری توجہ ہوم ڈلیوری پر زیادہ تھی‘ لیکن اب اصل ڈلیوری کی بھی اس کے ساتھ ساتھ کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میڈیا یہ بھی بتائے کہ بجلی سستی ہوئی‘‘ اگرچہ مختلف ٹیکس اور سرچارج لگا لگا کر اس کی بھی تلافی کردی گئی اور اب ماشاء اللہ سولر پلانٹ سے 100 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی کہ دو سال میں اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے؛ اگرچہ اس سے دو منٹ کی لوڈشیڈنگ بھی کم نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ''2018ء تک لوڈشیڈنگ اور بنیادی مسائل ختم ہو جائیں گے‘‘ اور اگر نہ بھی ہوئے تو ہماری بلا سے کیونکہ ہم تو اس وقت تک سدھار چکے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملکی حالات بہتر ہوئے‘ اب سیاسی حالات بہتر ہونا چاہئیں‘‘ جو این اے 125 کے فیصلے سے خراب ہوتے محسوس ہونے لگے ہیں۔ اس لیے عوام سے دعا کی درخواست ہے۔ آپ اگلے روز بہاولپور میں سولر پاور پلانٹ کے اختتام کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
ایان کیس
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے خبر دی ہے کہ ایان علی کیس کے چالان میں جان بوجھ کر نقائص چھوڑ دیے گئے ہیں تاکہ وہ سزایاب ہونے سے بچ جائیں۔ جبکہ عرب امارات سے نکلنے والے انگریزی روزنامے خلیج ٹائمز کی رپورٹ میں بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایان علی نے دوران تفتیش بہت سے سیاستدانوں اور ماڈلز کے نام بھی بتائے‘ جو منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ ایف بی آر کے کسٹمز ڈیپارٹمنٹ کے تحقیقاتی افسروں نے ایان علی کی رہائی کے لیے جان بوجھ کر چالان میں نقائص چھوڑے۔ ایان نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ انہوں نے ایک ہائوسنگ سوسائٹی سے پلاٹس کی فائلیں 50 لاکھ روپے میں خریدیں اور انہیں 5 کروڑ روپے میں بیچ
دیا۔ اس حوالے سے کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔ ایان علی کو ایئرپورٹ چھوڑنے والے شخص کو بھی شامل تفتیش نہیں کیا گیا؛ حالانکہ اس کی شکل کو سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے اس میگا سکینڈل نے ایئرپورٹس پر ایف بی آر افسروں کے زیر انتظام چلنے والے کرپٹ نظام کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ نیب کو چاہیے کہ وہ اس کیس کی تحقیقات کرے۔ چیئرمین نیب سیاستدانوں‘ کاروباری شخصیات اور کسٹم حکام پر الزامات کا جائزہ لیں اور اگر الزامات درست ثابت ہوں تو تمام افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
ذوالفقار مرزا بنام آصف زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری ایک کرپشن کیس میں حاضری کے لیے طلب کیے گئے تھے۔ وہ کراچی سے اسلام آباد عدالت میں پیشی کے لیے تشریف بھی لائے لیکن ناسازیٔ طبع کے باعث حاضر نہ ہوئے‘ اور ایک روز کا استثنیٰ طلب کر لیا؛ حالانکہ وہ اپنی دیگر سیاسی مصروفیات جاری رکھے ہوئے تھے۔ تازہ لطیفہ یہ ہے کہ سابق وزیرداخلہ سندھ اور زرداری صاحب کے رازدار یعنی ذوالفقار مرزا کئی روز سے اُن پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں لیکن صوبائی حکومت سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘ ماسوائے اس کے کہ ایک مقدمے میں انہوں نے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔
دعوت قبول!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق جناب آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی طرف سے 13 مئی کو پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے؛ اگرچہ اس اطلاع میں خبریت کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا کیونکہ عمران خان کے بڑھتے ہوئے خوف نے دونوں کو حد سے زیادہ یکسو اور یکجا کر رکھا ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کا شک و شبہ پیدا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جبکہ ''باریوں‘‘ کی یہ تکرار اسی خطرے سے دوچار ہے کیونکہ اس اُکتا دینے والی 'سٹیٹس کو‘ کی یہ نحوست زدہ فضا اب لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور اب جبکہ ملک کے نابینا اور گونگے بہرے افراد بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو یہ صبر آزما اور انتہائی تکلیف دہ کیفیت کسی وقت بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتی ہے‘ اس لیے دونوں بڑی پارٹیوں کے لیے ہم وجودیت کے فلسفے پر عمل پیرا رہنا بے حد ضروری ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے حضرات گیلانی اور زرداری صاحب سمیت کسی بھی اہم رہنما کے خلاف کرپشن وغیرہ کی کوئی بھی انکوائری‘ تفتیش یا مقدمہ بس ہوا ہی میں تحلیل ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ یہ اگر یک جان و دو قالب نہیں رہتے تو آنے والا وقت ان کے لیے سخت مایوس کُن ثابت ہو سکتا ہے اور نوشتۂ دیوار ان دونوں کو صاف نظر بھی آ رہا ہے۔
آج کا مقطع
بساطِ شوق ہی اس نے لپیٹ دی ہے‘ ظفرؔ
اُداس ہو جسے لپٹا کے پیار کرنے کو