"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ٹوٹا اور شاعری

دیہی روڈ پروگرام میں ایک دھیلے کی کرپشن برداشت نہیں کریں گے: شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دیہی روڈز پروگرام میں ایک دھیلے کی کرپشن برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ ویسے بھی ایک دھیلے کی کرپشن کرنے والا کوئی احمق ہی ہو گا کیونکہ کرپشن کا معاملہ تو کروڑوں، اربوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیز دھیلا تو اب سکۂ رائج الوقت بھی نہیں ہے اس لئے اس کی کرپشن کا کیا فائدہ ہے کیونکہ اس نے تو بازار میں چلنا ہی نہیں ہے اور، اسی سہولت کی بنا پر ہم نے طے کیا ہے کہ ایک دھیلے کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی یعنی نہ کوئی ایک دھیلے کی کرپشن کرے اور نہ اسے برداشت کرنے کی نوبت ہی آئے۔ انہوں نے کہا کہ ''راولپنڈی میٹرو بس منصوبے کی تکمیل سے تنقید کرنے والوں کے منہ بند ہو جائیں گے‘‘ کیونکہ تنقید اپوزیشن ہی کیا کرتی ہے جس کا منہ پہلے ہی بند ہے اور وہ ہمارے ساتھ مل کر اسی بند منہ سے کرپشن کیسز سمیت اپنے 'جملہ‘مسائل حل کر رہی ہے اور مخالفین کا منہ خود بخود ہی کالا ہو رہا ہے اور کالا دھن مفت میں ہی سفید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز میٹرو بس منصوبے کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
آئندہ قیادت ترک کرنے کا نام
بھی نہیں لوں گا: الطاف حسین
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ''آئندہ قیادت ترک کرنے کا نام بھی نہیں لوں گا‘‘ حالانکہ اس سے کوئی فرق تو پڑتا ہی نہیں کیونکہ جب بھی قیادت ترک کرنے کا اعلان کرتا ہوں، تھوڑی دیر کے بعد پھر اسے مضبوطی سے پکڑ لیتا ہوں جس سے کارکن بھی خوش ہو جاتے ہیں اور میں بھی، جبکہ ویسے بھی تقریباً ہر اعلان کی تردید کرتے رہنے سے بھی کافی مشق ہو گئی ہے اور اب اس سلسلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ''جب جان نکلے گی تب ہی قیادت چھوڑوں گا‘‘ تاہم کوشش کروں گا کہ قیادت اس کے بعد بھی کسی نہ کسی طور جاری رکھوں حتیٰ کہ اس مفید رسم کو ایکسپورٹ بھی کرنے کی ضرورت ہے جبکہ موت تو آنی جانی چیز ہے اور قیادت ایک بار ہی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں آج بھی فوج کا احترام کرتا ہوں‘‘ کیونکہ احترام اپنی جگہ ہے اور کبھی کبھار بے تکلفی کا اظہار کر لینا بالکل ہی دوسری بات ہے جبکہ تکلف ویسے بھی ایک مصنوعی اور ناپسندیدہ چیز ہے۔ آپ اگلے روز لندن سے فون پر کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
جیل کی زندگی اتنی مشکل نہیں
جتنی آج تک سمجھتی رہی: ایان علی
سپر ماڈل ایان علی نے کہا ہے کہ ''جیل کی زندگی اتنی مشکل نہیں جتنی آج تک سمجھتی رہی ہوں‘‘ اور اس کے ساتھ ویسے بھی ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ اب یہ بات یقینی ہوتی جا رہی ہے کہ اس دلچسپ جگہ میں کافی طویل عرصے تک رہائش اختیار کرنا پڑے گی کہ انویسٹی گیشن ٹیم نے دوبارہ سے سنجیدگی اختیار کر لی ہے اور ثبوت اکٹھے کرنے میں صحیح طور پر دوڑ دھوپ کر رہی ہے، نیز اس میں جن جن اہم لوگوں کا نام آنے لگا ہے، امداد کی بجائے انہوں نے دور رہنے میں ہی عافیت جان لی ہے اور وہ خود منہ چھپاتے پھرتے ہیں، کیا زمانہ آ گیا ہے‘ البتہ عدالت میں آئے دن کی پیشی کافی مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ میک اپ وغیرہ پر اب تک ایک لاکھ 93 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں اور برآمد ہونے والی رقم بھی بحق سرکار ضبط کر لی گئی ہے، آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ انہوں نے کہا کہ ''جیل سے باہر ہزاروں لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘ جبکہ جیل کے اندر اہلکاروں ہی کے سوکھے سڑے چہرے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جیل میں خادمائوں کی خدمت نے ایک بار پھر تازہ دم کر دیا ہے‘‘ اگرچہ باہر کے خدمت گاروں کو خدمت کا موقع نہیں مل رہا جو کہ نہایت افسوس ناک بات ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھ رکھا ہے۔
دبئی میں پاکستانیوں کا کالا دھن
ایک خباری اطلاع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کمیشن ان لینڈ ریونیو نے اربوں روپے کا کالا دھن دبئی منتقل کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹ گروپ ''دماک پراپرٹیز‘‘ سے رابطہ کرنے والے 700 پاکستانیوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانیوں کی جانب سے دبئی بھجوایا جانے والا کالا دھن سوئس بینکوں میں موجود پاکستان کے کالے دھن سے 10گنا زیادہ ہے۔ ان پاکستانیوں میں بہت سے لوگ فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے کچھ بڑے لوگ ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے تاہم بااثر حلقوں کی طرف سے یہ کیس سرد خانے کی نذر کرنے کے لیے ایف بی آر پر دبائو ڈالا جا رہا ہے!
اور اب سید کامی شاہ کی غزل کے یہ خوبصورت اشعار۔
زمین دل سے جو تصویرِ پا اٹھاتے ہیں
خبر نہیں ہے کسی کو بھی کیا اٹھاتے ہیں
تو پھر وہ پوری طرح دیکھ کیوں نہیں پاتے
جو دیکھنے کے لیے آئنہ اٹھاتے ہیں
تمہاری تیز نگاہی نے جو کیا تھا کبھی
ہم اب بھی بار اسی احسان کا اٹھاتے ہیں
ہر ایک جسم کو اپنا ہی بوجھ ہے درپیش
تو آپ کون سا ایسا نیا اٹھاتے ہیں
رہیں گے چل کے اسی گھر میں جس سے نکلے تھے
پرائے گھر سے چلو بوریا اٹھاتے ہیں
یہیں پڑائو ہے کامی، یہیں قیام بھی ہے
مگر ہم اپنے لیے راستہ اٹھاتے ہیں
آج کا مقطع
روشن تھا‘ ظفرؔ، وسط میں مہتاب ملاقات
میں چاروں طرف ہالۂ ہجراں کی طرح تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں