"ZIC" (space) message & send to 7575

ریکارڈ کی درستی کے لیے

پرسوں والے کالم میں بہت سی غلطیاں رہ گئیں۔ ایک تو یہ کہ میں فورٹریس سٹیڈیم کی بجائے قذافی سٹیڈیم لکھ گیا۔ دوسرے آمنہ احمد کو کاملہ احمد لکھا گیا۔ اس بی بی سے انتہائی معذرت‘ لیکن میں نے اپنی بات سچ بھی کر دکھائی کہ نام بھول جایا کرتا ہوں؛ تاہم آدھا نام پھر بھی صحیح لکھ دیا۔ اس آدھے سے اپنا یہ شعر یاد آیا ؎
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے‘ آدھا بھول گیا ہوں
بلکہ انہوں نے تو مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اگر اپنا نام غلط چھپنے کے باوجود وہ اب تک اس پر قائم ہوں تو میں نے ذوالقرنین کو پابند کر لیا ہے کہ کبھی یہ موقع آیا تو وہ میرے ساتھ ہوں گے۔ تیسری غلطی یہ رہی کہ جن بزرگ دوست کا ذکر کیا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو حفیظ طاہر تھے جو ہرگز ناآشنا نہیں تھے‘ البتہ ملاقات کافی عرصے کے بعد ہوئی تھی۔ چوتھی اور سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ذوالقرنین ریما کے علاوہ فلم سٹار کویتا کے بھی عاشقِ زار رہے ہیں۔ البتہ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ وہ ان نازنینوں کے ساتھ بہ یک وقت عشق فرما رہے تھے یا یہ سعادت انہیں یکے بعد دیگرے حاصل کروائی جا رہی تھی۔
جس طرح ڈاکٹر وحید قریشی نے شہرۂ آفاق کتاب ''شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ لکھی تھی‘ اسی طرح میرا بھی ارادہ ہے کہ مفصل اور مکمل معلومات حاصل کر کے ایک کتاب بعنوان ''ذوالقرنین کی حیاتِ معاشقہ‘‘ بھی‘ بشرطِ زندگی‘ لکھ ماروں۔ اُس کتاب کے ساتھ ایک لطیفہ یہ بھی ہوا تھا کہ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو چونکہ اس کے اندر اپنے موضوع سے کچھ زیادہ ہی بے تکلفی کا اظہار کیا گیا تھا‘ اس لیے ایک دینی سیاسی جماعت نے‘ بقول شخصے‘ جس کے شبلی کے بارے میں مؤدت کے جذبات کچھ زیادہ ہی تھے‘ تمام بک سٹالوں سے وہ کتاب خرید کر تلف کرا دی! چنانچہ میری اس غلطی کا ازالہ شاید اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ میں یہ کتاب لکھوں اور یونیورسٹی والوں کو اسے تلف نہ کروانے دوں!
اس کالم کا عنوان غلطیہائے مضامین بھی ہو سکتا تھا لیکن اس لیے درگزر کی کہ میرے حساب سے اس عنوان میں بھی ایک غلطی موجود ہے کہ یہ غالبؔ کے ایک مصرع سے لیا گیا ہے کہ ع
غلطیہائے مضامیں مت پوچھ
میرا اعتراض یہ ہے کہ غالب نے غلطیہا کہہ کر غلطی کو مفرس کردیا ہے جبکہ یہ لفظ اردو کا ہے اور فارسی لغت میں غلطی کا لفظ ہی موجود نہیں ہے بلکہ فارسی میں غلطی کو بھی غلط لکھا جاتا ہے جیسا کہ اس قطعہ سے ظاہر ہوتا ہے:
گاہ باشد کہ پیرِ دانشمند
بر نیاید درست تدبیرے
گاہ باشد کہ کودکِ ناداں
از غلط بر ہدف زند تیرے
تاہم ان باریک بینیوں کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سے فارسی کا چلن ویسے ہی رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ بقول شخصے ہمیں تو اردو ہی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
میں نے ذوالقرنین میاں سے آج فون پر یہ بھی کہا کہ جو کتابیں میں آپ کی لائبریری کے لیے پیش کر آیا تھا‘ ان پر سے وائٹنر سے میرا نام مٹا دیں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں نے یہ کتابیں آپ کو بیچ ڈالی ہیں۔ ماضی کے ایک مشہور اور اصول پسند صحافی‘ جن کا نام لینا مناسب نہیں لگتا‘ کو کسی مصنف نے اپنی کتاب بھیجی۔ کچھ دنوں بعد اس مصنف نے دیکھا کہ وہ کتاب فٹ پاتھ پر ایسی کتابوں میں پڑی ہے جو سستے بھائو خرید کر آگے اونے پونے بیچ دی جاتی ہیں۔ اس مصنف کو یہ بات کچھ زیادہ اچھی نہ لگی؛ چنانچہ وہ کتاب انہوں نے وہاں سے نصف قیمت پر خریدی اور اس پر دوبارہ لکھ کر موصوف کو بھجوا دی۔ کچھ دن بعد وہ مصنف اُدھر سے گزرا تو وہ کتاب پھر وہاں پڑی تھی؛ تاہم میں نے صاحبِ موصوف کو بتایا کہ ان سے کہیں زیادہ کتابیں فارم ہائوس پر پڑی ہیں‘ جونہی اُدھر جانا ہوتا ہے‘ لا کر پیش کردوں گا۔
اب میں نے قدم قدم چلنا شروع کردیا ہے‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ذوالقرنین نے مجھے چلانا شروع کردیا ہے‘ ورنہ پہلے تو صورتِ حال یہ تھی کہ ؎
چل نہیں سکتا ہوں اور اُس تک پہنچنا ہے ضرور
سن نہیں سکتا ہوں اور اُس کا اشارہ شور ہے
سن نہ سکنے کو البتہ آپ مبالغہ کہہ سکتے ہیں حالانکہ یہ نوبت بھی اب کچھ زیادہ دور دکھائی نہیں دیتی‘ تاہم اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس کے اپنے فوائد ہیں یعنی بقول غالبؔ ؎
بہرا ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
حالانکہ بہرا نہ ہونے کے باوجود بھی مکرر کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ منقول ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگا ہوا تھا کہ ایک ادبی انجمن نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا اور اس کی صدارت کے لیے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دفتر سے کسی کرنل صاحب کو مدعو کر لیا جنہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ دعوت قبول کر لی۔ مشاعرے کے دوران سامعین کو کوئی شعر زیادہ پسند آتا تو قاعدے کے مطابق مکرر کی فرمائش کی جاتی اور وہ شعر دوبارہ یا بار بار سنایا جاتا۔ کرنل صاحب کچھ دیر تو یہ تماشا دیکھتے رہے‘ آخر تنگ آ کر غصے سے بولے:
''یہ کیا مکرر مکرر لگا رکھی ہے‘ ایک ہی بار کیوں نہیں غور سے سن لیتے؟‘‘
آج کا مطلع
پتا نہیں چلنے دیتا اور شامل ہو جاتا ہے
یوں کوئی چپکے سے دل میں داخل ہو جاتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں