ہمارے دوست رانا عبدالرحمن نے بک ہوم کی طرف سے یہ کتاب چھاپی اور ہمیں بھجوائی ہے اور جس کی قیمت500روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا فاضلانہ دیباچہ ہمارے ایک اور دوست‘ شاعر اور نقاد ڈاکٹر ضیاء الحسن نے لکھا ہے۔ افضال نے فون پر کتاب موصول ہونے کی تصدیق چاہی اور کہا کہ میں نے تو زاہد مسعود(ہمارے ایک اور شاعر دوست) سے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے فلیپ کی چند سطریں لکھوا لیں‘ لیکن اس نے بتایا کہ انہوں نے تو پورا دیباچہ ہی لکھ دیا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب Primitiveسوچ کے مالک ہیں اور انہیںمیری شاعری کی سمجھ ہی نہیں آئی(میں اس سے متفق نہیں)۔ افضال نوید آج کل مشکل پسندی کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس سے کم و بیش ہر جینوئن شاعر گزرتا ہے اور جس کا تذکرہ میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ خود دیباچہ نگار نے کہا ہے ‘کہ اور بالکل صحیح کہا ہے کہ ایسی شاعری کو بہت کم قاری دستیاب ہوتا ہے۔ متازعہ ہونا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ اس میں سے بہتری اور تازگی کے امکانات بھی چھپے ہوتے ہیں۔ ایسا شاعرقاری کی ویسے بھی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ بالعموم قاری کے لیے لکھتا ہی نہیں بلکہ ہم کلامی میں مصروف ہوتا ہے اور اس سے لطف اٹھانے میں بھی۔ بس یہ ہے کہ وہ اپنی یہ طرز و روش ریکارڈ کرا رہا ہوتا ہے۔
اور جیسا کہ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے‘ شاعر بھی یہی کچھ کرتا ہے۔ صرف یہ ہے کہ اس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور ' مشکل پسندی‘ شاعر کسی فیشن کے طور پر اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ اس کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ میں نے چند سال پہلے ''دنیا زاد‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''اخفائے معنی ‘ التوائے معنی اور غارت معنی‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ افضال نوید التوائے معنی کا شاعر ہے، کم از کم فی الحال یہ جینوئن شاعر معنی اور معنی آفرینی کی کچھ زیادہ پروا بھی نہیں کرتا‘ نہ ہی یہ اس کا مسئلہ ہوتا ہے کہ شعر قاری کی سمجھ میں بھی ضرور آئے‘ میں اس ضمن میں غالب کی مثال دیا کرتا ہوں جس کے دو شعر ہیں ؎
نہیں گر سروبرگِ ادراکِ معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
خمِ زلف و شکنِ طرفِ کلاہے دریاب
مطلب یہ کہ شعر میں معنی کے علاوہ دیگر خوبصورتیاں بھی ہو سکتی ہیں‘ مثلاً یہ کہ شعر اپنی شکل و صورت سے کیسا لگتا ہے اور یہ کہ اس میں کچھ دیگر خوبیاں بھی ہیں یا نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں تجرید‘ لایعنیت او ر بے معنویت سے بھی بحث کی ہے لیکن تجرید کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ تجرید تو مماثل چیزوں کے دور و نزدیک کے رشتوں کو جوڑنے کا وظیفہ ہے نیز یہ کہ تجریدی مصوری اور تجریدی شاعری کو ایک ہی خانے میں نہیں رکھا جا سکتا، پھر دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ خود شاعر کے اندر کتنی تجرید موجود ہے جبکہ شعر لایعنی اور بے معنی بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات افشائے معنی اور التوا ئے معنی سے غارت معنی تک بھی جا سکتی ہے۔ اول تو کوئی شعر بے معنی ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ خود کوشش کر کے اسے بے معنی نہ بنایا جائے کیونکہ شعر الفاظ ہی کا مجموعہ تو ہوتا ہے اور الفاظ کبھی بے معنی نہیں ہو سکتے۔ اور اگر ان کی توڑ پھوڑ بھی روا رکھی جائے تب بھی وہ معنی دینے سے باز نہیں آئے۔ یہ ان کی مجبوری بھی ہے۔ منصور آفاق جو خود ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں‘ نزدیک بھی ایسی شاعری پرت در پرت کھلتی ہے اور آنکھوں کو کھوجنے کی سعادت عطا کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دیباچے کے بعد ایک مختصر رائے ان کی بھی شامل کتاب ہے۔
تاہم‘ مشکل اشعار کے ساتھ ساتھ کبھی عام فہم یا کم مشکل اشعار بھی وارد ہو جاتے ہیں جن کا اعتراف خود ڈاکٹر صاحب نے بھی کیا ہے‘ لہٰذا آپ کے تفننِ طبع کے لیے کچھ ایسے اشعار پیش ہیں:
رواں تھی صر صر پارینہ‘ پار میں تم تھے
اٹھی جو آنکھ مرے ریگ زار میں تم تھے
دلوں پہ تنگ ہوا جا رہا تھا دروازہ
اداسیوں سے ادھر کی پکار میں تم تھے
صدا گزرتے ہوئے دور جاگری اس دن
نہ جانے نیند کے کس خار زار میں تم تھے
بن رہے ہیں جہاں گھر‘ کاٹ دیے جائیں گے
کچھ دنوں میں یہ شجر کاٹ دیئے جائیں گے
سخت ہے پہرۂ زر کاٹ دیئے جائیں گے
سوچ رکھتے ہیں جو سر‘ کاٹ دیئے جائیں گے
جانا چاہو گے تو رستہ نہ ملے گا کوئی
اڑنا چاہو گے تو پر کاٹ دیئے جائیں گے
راستہ اپنا بنانا پڑے گا ایک نوید
راستے سارے اگر کاٹ دیے جائیں گے
سانسوں سے روح تک کئی موسم گزر گئے
بارش میں جذب ہوتے رہے خواب رات بھر
رہین خواب رہے‘ ہوش سے جھگڑ نہ سکے
ملا کنارۂ عبرت مگر پکڑ نہ سکے
اسی لیے تو محبت نہ کم ہوئی مجھ سے
ہر ایک لمحے کو میں آخری سمجھتا تھا
کسی طلسم کا دروازہ کھولتا ہے مجھے
چراغِ اسم ہی کوئی جلا کے لے جائوں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
میں مگر آئنے کے اندر ہوں
کہ جیسے میں مرے اندر کہیں نہیں ملتا
مجھے وہ اپنے سے باہر کہیں نہیں ملتا
یہ لگ رہا ہے کہ صدیوں سے ساتھ ساتھ مرے
وہ چل رہا ہے برابر کہیں نہیں ملتا
عجیب مشغلے ہیں نیند کے علاوہ بھی
میں اپنے آپ کو اکثر کہیں نہیں ملتا
لطف یہ ہے کہ یہ سبھی اشعار ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنے دیباچے میں نقل کئے ہیں۔ یہ کتاب نہایت عمدہ گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے! کتاب کا فلیپ حفیظ طاہر نے لکھا ہے ۔
آج کا مقطع
تارے سے دل میں ٹوٹتے رہتے ہیں‘ اے ظفر
اور ساری ساری رات دھڑکتا ہے آسمان