چار کروڑ خاندانوں میں سے 10 فیصد
کے پاس اپنے گھر ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''چار کروڑ خاندانوں میں سے 10 فیصد کے پاس اپنے گھر ہیں‘‘ جو کہ بہت بُری بات ہے جبکہ گھر بھی انہی خاندانوں کے پاس ہیں جو ہماری اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں بھی گھر نہیں بلکہ محلات کہنا چاہیے جو باقی 90 فیصد افراد کی غیرت کو ایک چیلنج ہے حالانکہ وہ سیاست میں داخل ہو کر‘ اور شامل اقتدار ہو کر ایک چھوڑ‘ دس دس گھروں کے مالک ہو سکتے تھے‘ افسوس کہ انہوں نے ہم لوگوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں بلکہ بعض من چلے خاندانوں نے تو فٹ پاتھوں ہی کو اپنا گھر بنا رکھا ہے‘ جس سے لوگوں کے چلنے پھرنے میں زبردست رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے جس کے لیے ہمیں میٹرو بس وغیرہ چلانی پڑتی ہے اور رنگ برنگے سکینڈلز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی ہم نے کبھی پروا نہیں کی کیونکہ کام کریں گے تو سکینڈل بھی بنیں گے اور اگر کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے‘ اور اگر کھائیں گے نہیں تو غنودگی کے بغیر دماغ کیسے رواں ہوگا اور اگر دماغ رواں نہیں ہوگا تو اپنا شہرۂ آفاق غورو خوض کیسے جاری رہ سکتا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تھانہ اور کچہری میں ناانصافی کے خاتمہ کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا... شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''تھانہ اور کچہری میں ناانصافی ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا‘‘ کیونکہ اگر مل کر کھایا جا سکتا ہے تو کام کیوں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم اکیلے نہ تھانے کو ٹھیک کر سکتے ہیں نہ کچہری کو‘ کیونکہ جہاں ڈی پی اوز سے منتھلی لی جاتی ہو وہاں پولیس کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے اگرچہ وکلاء اور تھانیدار ایک دوسرے کو ٹھیک ضرور کر سکتے ہیں جیسا کہ اگلے روز ڈسکہ میں کیا گیا ہے جہاں تھانیدار اور وکلاء نے مل کر نہ صرف کام کیا بلکہ ایک دوسرے کا کام بھی تمام کرنے کی کوشش کی جس میں زیادہ کامیابی تھانیدار کو حاصل ہوئی جس نے غالباً اپنے دفاع اور جان بچانے کے لیے فائر وغیرہ کردیا جو کہ اکثر اوقات ہو ہی جاتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے ماڈل ٹائون واقعہ اور دیگر مقامات پر ہو چکا ہے کیونکہ جان بچانا پولیس اہلکار کا سب سے پہلا فرض ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی جان نہیں بچائے گا تو عوام کی جان کیسے بچائے گا؛ چنانچہ مل کر کام کرنا بہت ضروری ہے جیسا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کام کر رہی ہیں اور جملہ مسائل کا خاتمہ ہو چکا ہے جو اپوزیشن کے اپنے مسائل یعنی انکوائریوں اور مقدمات وغیرہ کے سلسلے میں ہوا تھا اور اب تک جاری ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں وکلاء کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
میڈیا کرپشن کے خاتمہ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''میڈیا کرپشن کے خاتمے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے‘‘ کیونکہ حکومت اس سلسلے میں قطعی طور پر معذور ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے یعنی خدمت کرے یا کرپشن کا خاتمہ‘ جبکہ شرپسند لوگ خدمت کو بھی کرپشن کا نام دیتے ہیں‘ لیکن ہم نے کبھی اس کی پروا نہیں کی۔ اس لیے نیب وغیرہ کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بڑی بڑی انکوائریوں اور مقدمات کا بوجھ اس پر سے اتار کر اسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں کارگزاری دکھانے کا موقع اور مہلت مہیا کی جاتی ہے کیونکہ جب تک نچلی سطح سے کرپشن ختم نہیں ہوتی‘ چوٹی سے کیسے ختم کی جا سکتی ہے جبکہ چوٹی والے بھی اپنے پسندیدہ افسروں کے ذریعے ہی یہ خدمت بجا لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن سے انکار کے حوالے سے نیب کی مہم قابل تحسین ہے‘‘ اور حکومت بھی ماشاء اللہ اسی پالیسی پر گامزن ہے اور دن رات کرپشن سے انکار ہی کرتی رہتی ہے جو کہ ایک قسم کا اقرار ہی ہوتا ہے کیونکہ سب کچھ عوام کی آنکھوں کے سامنے ہی ہو رہا ہے‘ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نیب کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
اقتصادی راہداری پر دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے... چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ
''اقتصادی راہداری پر دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں‘‘ جبکہ کچھ دوستوں کا دال دلیہ ضرور ہو گیا ہے جنہوں نے بروقت مجوزہ صنعتی زونز کے گردونواح میں زمین خرید لی جو کہ اسی لیے اس منصوبے کو آخر تک صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا کہ یہ لوگ کچھ دال دلیا کر لیں‘ اور اس کے بعد اگلے روز ہی اس کے اصل روٹ پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے تاکہ اس دوران کچھ لوگوں کا بھلا ہو جائے جبکہ ملک عزیز میں زمین خریدنے پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے جبکہ وزیراعظم سے صلح کے بعد اس طرح کا مثبت بیان ضروری ہو گیا تھا کیونکہ کچھ لوگوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ صلح ہو بھی سکتی ہے‘ لیکن وہ خاطر جمع رکھیں‘ یہ معاملہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اور اس کام سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''عزیر بلوچ کو بھاگنے نہیں دیں گے‘‘ اگرچہ بھاگنا انسانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے اور خاکسار نے کئی بار وزیراعظم صاحب کو بھی مشورہ دیا ہے کہ کچھ دوڑ شوڑ بھی لگا لیا کریں۔ آپ اگلے روز چک بیلی میں خطاب اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
شور ہے اس گھر کے آنگن میں، ظفرؔ، کچھ روز اور
گنبدِ دل کو کسی دن بے صدا کر جائوں گا