بھارت امن کی خواہش کو ہماری
کمزوری نہ سمجھے... نواز شریف
وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بھارت امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھے‘‘ بلکہ یہی تو ہماری اصل طاقت ہے کہ ہم دور اندیش کبوتر کی طرح بلی کو دیکھتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ وہ شرمندہ ہو کر خود ہی کہیں چلی جائے گی اور پچھلے دنوں ہمارا جو کبوتر بھارت نے گرفتار کیا تھا اگر اس کی بھی آنکھیں کھلی ہوتیں تو وہ ہرگز گرفتار نہ ہوتا اور ہماری آنکھیں کھلنے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خاکسار نے اپنے بیانات میں ہمسایہ ملک کی بجائے بھارت کا باقاعدہ نام لینا شروع کر دیا ہے اور واضح رہے کہ میں کسی دن ڈائریکٹ مودی صاحب کا بھی نام لے سکتا ہوں‘ جنہیں چاہیے کہ وہ پاکستان مخالف بیانات نہ دیا کریں کہ آخر اُن کے وزیر کس مرض کی دوا ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''غیر ذمہ دارانہ بیانات سے مفاہمتی فضا خراب ہوئی‘‘ جو بھارتی افواج کی طرف سے سرحدوں پر ہمارے لوگوں پر مسلسل حملوں کے باوجود خاصی حد تک باقی اور موجود تھی‘ حتیٰ کہ اقتصادی راہداری پر بھارتی عزائم کے باوجود اس کو کچھ زیادہ نقصان نہ پہنچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مسئلہ کشمیر کو فراموش نہیں کر سکتے‘‘ جس پر عوام کے دبائو کی وجہ سے کبھی کبھار بیان وغیرہ دینا پڑتا ہے جس کا بھارت کو برا نہیں منانا چاہئے اور زرداری صاحب کی عطا کردہ مفاہمتی پالیسی اور اس کے فوائد کے پیش نظر اسی طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ہم دونوں پارٹیاں مالا مال ہو رہی ہیں اور عوام حیران و پریشان کھڑے دیکھ رہے ہیں ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سفیروں کی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
رمضان پیکیج کے ثمرات عوام تک
پہنچنا چاہئیں... شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''رمضان پیکیج کے ثمرات عوام تک پہنچنا چاہئیں‘‘ اور‘ اگر نہ پہنچے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں کیونکہ ہمارا کام پیکیج بنانا ہے‘ اس کے فوائد عوام تک پہنچانا نہیں کہ عوام ہی کی خاطر جنگلہ بسوں وغیرہ کے منصوبوں میں مصروف ہیں جبکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے جبکہ اپنے اصلی کام کو کوئی بھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی غیر ضروری کاموں میں وقت ضائع کیا جا سکتا ہے کیونکہ مثلاً تعلیم کے سلسلے میں ہم بزرگ صوفی شاعر بابا بلھے شاہؒ کے بقول 'اکو الف ترے درکار ، علموں بس کریں او یار‘ پر عمل پیرا ہیں کیونکہ صوفی شعراء کا کلام ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''رمضان پیکیج کی نگرانی میں خود کروں گا‘‘ اگرچہ اب تک جس کام کی نگرانی میں نے خود کی ہے‘ قضائے الٰہی سے کبھی اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے اور ہم قضائے الٰہی پر مکمل یقین رکھنے والے لوگ ہیں اور اسی لئے قضا و قدر کے فرشتے ہم پر مہربان بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ساڑھے تین ارب روپے کی سبسڈی میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ جس طرح ہم نے گھٹیا آٹے کی برآمد پر فلور ملوں کو دی جانے والی سبسڈی میں کوتاہی برداشت نہیں کی اور اس پر مکمل طور پر عمل ہوا اور کسان اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صوبائی پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
بھارت کا خونخوار چہرہ دنیا کو ضرور
دکھائیں گے... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''بھارت کا خونخوار چہرہ دنیا کو ضرور دکھائیں گے‘‘ جبکہ ہمارا مظلوم چہرہ دنیا کو پہلے ہی نظر آرہا ہے کیونکہ ہم نے اپنے تمام معاملات خدا تعالیٰ پر چھوڑ رکھے ہیں اور صرف اپنے اصل کام پر توجہ دے رہے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ پیسہ کس طرح کمایا جائے کیونکہ ایک بھوکی ننگی حکومت بھوکے ننگے عوام کی کیا خدمت کر سکتی ہے جنہیں اس نے اس حال تک خود ہی پہنچایا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کے لئے پاکستانی سفارت کاروں کو متحرک کر دیا گیا ہے‘‘ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم سمیت دیگر بھارتی معززین کے واضح بیانات کے باوجود بھارت کاخونخوار چہرہ ابھی دنیا کے سامنے نہیں آیا ہے اور ابھی کافی شک شبہ باقی ہے، ویسے بھی سفارتکاروں کو پہلی بار زحمت دی ہے کہ وہ کام وغیرہ کی طرف بھی توجہ دیں جو کہ ویہلیاں کھانے کی عادت میں مبتلا ہیں اور جنہیں حکومت سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ مندرجہ بالا بیان کے مطابق کچھ تو کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اقتصادی راہ داری پر عملدرآمد کرتے رہیں گے‘‘ اگرچہ ہمارا کام چینی خود ہی کریں گے اور ہمارے لئے اس میں سے دال دلیہ حاصل کرنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے جس کی کسر ہم دوسرے کاموں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آدمی کو آخر کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارتی جنگی جنون کو بے نقاب کرنے کے لئے حکمت عملی کا آغاز کر دیا گیا ہے‘‘ کیونکہ جو نقاب اس نے اوڑ ھا ہوا ہے اس میں سے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز سے بات چیت کر رہے تھے۔
گندم سیکنڈل
گندم درآمد سیکنڈل کو طشت ازبام ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس پر وزیر اعظم نے اپنی لاعلمی اور حیرانی کا اظہار کیا ہے اگرچہ وہ اس پر ایک انکوائری کمیٹی بھی بٹھا چکے ہیں‘ جس کی سربراہی دانیال عزیز اور بیرسٹر ظفر اللہ کے سپرد کی گئی تھی کہ اربوں روپے کا یہ سیکنڈل کیونکر ممکن ہوا۔ اب وزیر اعظم نے اس پر ایک اور انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے اور دانیال عزیز صاحب سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی کہ جو انکوائری آپ کے سپرد کی گئی تھی اس کا کیا بنا اور اس میں اگر تاخیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے جبکہ کسٹم والوں سے یہ تک نہیں پوچھا گیا کہ لاکھوں ٹن درآمدی گندم مفت میں کیوں آنے دی گئی اور کوالٹی کنٹرول والوں نے انتہائی ناقص گندم کو چیک کیوں نہیں کیا۔ نہ ہی وزیر اعظم کے قریبی عزیز وفاقی وزیر خزانہ سے کسی نے یہ پوچھا کہ اس ناقص آٹے کی برآمد پر اربوں روپے کی سبسڈی فلور مل مالکان کو کس خوشی میں دی گئی اور اس سارے سیکنڈل کی وجہ سے کسانوں کا جو کچومر نکل گیا ہے جن کی گندم نہیں بک سکی اور جو گندم سرکاری شعبوں نے خریدی ہے وہ گوداموں اور باردانے کی عدم موجودگی کی وجہ سے کھلے میدان میں بارش وغیرہ کے ہاتھوں گل سڑ رہی ہے اور اس کی خریداری کے لئے بینکوں سے حاصل کئے گئے قرضوں کی عدم واپسی سے جو بحران پیدا ہورہا ہے اس کے ذمہ دار صرف کسٹم افسران ہی ہیں یا یہ کمائی اوپر تک پہنچی ہے جس کی وجہ سے یہ پُراسرار خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔
کراچی میں ......
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس کا انکشاف ڈی جی رینجرز نے اپیکس کمیٹی میں کیا ہے اور جس کی تفصیلات بیان کرکے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور جو اکثر و بیشتر اردو اخبارات کی شہ سرخی قرار پائی ہے‘ تو ملک کے ایک بہت بڑے انگریزی اخبار نے جو اس کا مکمل طور پر بلیک آئوٹ کیا ہے اس کی وجہ ہمیں نہیں معلوم اور نہ ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس کی تحقیقات کے لئے حسب معمول ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی ہے جو نامعلوم مدت میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ چونکہ ناجائز طور پر جمع کی جانے والی یہ رقم دہشت گردی میں بھی استعمال ہو رہی ہے اس لئے یہ اس کارروائی کی بھی براہ راست ذیل میں آتی ہے جو کراچی میں ان عناصر کے خلاف جاری ہے ۔ چونکہ اس میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں‘ اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پنجاب کے گندم سکینڈل کی طرح اس پر بھی یکے بعد دیگرے کمیٹیاں ہی بنتی رہیں اور عوام کو اس بارے اندھیرے میں ہی رکھا جائے جس طرح دوسرے کئی معاملات میں رکھا جارہا ہے جبکہ اس ساری مشق کی ذمہ دار وفاقی حکومت بھی ہے جس کا نمائندہ گورنر کی شکل میں اس عہدے کے مزے بارہ سال سے لوٹ رہا ہے!
آج کا مطلع
گلشن خواب ہوں‘ تاراجِ حقیقت کر دے
اتنے احسان کیے‘ یہ بھی مروت کر دے