فوج کے خلاف بیان پر خاموش
نہیں رہ سکتے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''فوج کے خلاف بیان پر خاموش نہیں رہ سکتے‘‘ لیکن فی الحال اس کی مذمت بھی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ ابھی تیل اور اس کی دھار کو دیکھ رہے ہیں‘ ویسے زرداری صاحب نے اپنے ساتھ ساتھ ہمارے بھی ٹھوٹھے پر ڈانگ مار دی ہے کیونکہ اس معاملے نے اگر زور پکڑ لیا تو نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا جبکہ انہوں نے اپنے مفاہمتی فارمولے کی بھی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ایسا بیان دینے سے پہلے انہوں نے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا حالانکہ اسے کچھ عرصے کے لیے مؤخر بھی کیا جا سکتا تھا اور اس بیان پر حکومت کو الگ پسینے آ رہے ہیں کیونکہ ہماری نیکیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ البتہ جو کچھ عزیز القدر اسحق ڈار کر رہے ہیں یا جو کچھ وہ ملک اور اس معیشت کے ساتھ کر چکے ہیں‘ مجھے اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے کیونکہ کاروباری آدمی کو اپنے کاروبار کے علاوہ کسی بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جبکہ موصوف خود بھی کاروبار ہی کر رہے تھے اور اس میں کافی برکت بھی پیدا ہو رہی تھی‘ خصوصاً قطر سے گیس کی درآمد جس پُراسرار انداز میں ہوئی ہے اتنے ہی رازدانہ انداز میں اس نے رنگ بھاگ بھی لگا دیئے ہیں۔ بہرحال زرداری
صاحب نے نہ صرف اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے بلکہ ساتھ ہمیں پریشان اور خبردار بھی کردیا ہے کیونکہ اُدھر صاحبِ موصوف کا ایک ایسا فرنٹ مین پکڑا گیا ہے جو اربوں نہیں بلکہ کھربوں میں کھیل رہا ہے جو ہمارے لیے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے وہاں ایک گرفتار افسر نے آمدنی کا 70 فیصد بلاول ہائوس بھیجنے کا بھی اعتراف کر لیا ہے؛ چنانچہ ایک لحاظ سے تو یہ صاحبِ موصوف کی مجبوری بن گیا تھا کہ وہ ایسا بیان دیتے تاکہ اس ساری کارروائی کو انتقام کا رنگ دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''دشمن پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے در پے ہے‘‘ لیکن احتیاطاً ان میں زرداری صاحب کا نام شامل نہیں کیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کل کو ہمیں بھی انہیں یہ کہنا پڑے کہ ؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل
انہوں نے کہا کہ ''فوج ملک کے لیے لڑ رہی ہے‘ اس کے خلاف بیان دینا مناسب نہیں‘‘ کیونکہ فی الحال اس موضوع پر اس سے زیادہ نرم الفاظ استعمال نہیں کیے جا سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں ہمارے کسی بیان پر بھی زرداری صاحب کو بیان دینا پڑ جائے کیونکہ بُرا وقت کسی سے پوچھ کر نہیں آتا‘ اور ہم سے تو اس نے پہلے بھی پوچھنے کا تکلف روا نہیں رکھا تھا‘ اس لیے اگرچہ ہمارے جن اب کافی سیانے ہو چکے ہیں لیکن انہیں سیانے ہونے میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی وقت لگ گیا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کرپشن کی تحقیقات قانون نافذ کرنے
والے اداروں کا کام نہیں... رانا ثناء
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''کرپشن کی تحقیقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں‘‘ کیونکہ ایسی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے اور نیب جیسے خودمختار ادارے پہلے ہی موجود ہیں جو رینجرز کے برعکس اپنی حدود میں رہتے ہیں اور حکمرانوں کی ہدایات کے مطابق پورے انصاف سے چلتے ہیں اور نامناسب کارروائیاں اور تفتیش یا تو روک دی جاتی ہیں یا اُن کے سر پھرے تفتیشی تبدیل کر دیئے جاتے ہیں بلکہ نیب کے ایسے چیئرمین بھی موجود ہیں جو کسی مغربی ملک کی کھلی ہوائوں اور فضائوں میں اپنی صحت بہتر بنانے میں مصروف ہیں‘ چنانچہ ان دونوں اداروں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو رہا ہے اور آج تک کسی معزز سیاستدان کے خلاف کوئی کارروائی توڑ نہیں چڑھی کیونکہ اگر سیاستدانوں کی عزت محفوظ نہیں تو اس ملک میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہ سکتی جبکہ ماڈل ٹائون کیس میں بھی یہ عزت کافی مشکل سے بچائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حالات میں وزیراعظم کا زرداری صاحب سے نہ ملنا ہی بہتر تھا‘‘ کیونکہ اس سے دونوں کا مستقبل مخدوش ہو سکتا تھا جبکہ دونوں کے کام تقریباً ایک ہی جیسے تھے اور اصولی طور پر دونوں کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک ہونا چاہیے تاکہ فوج پر جانبداری کا الزام نہ لگ سکے اور یہی سب سے خطرناک بات بھی ہے اور اس طرح آٹے کے ساتھ گھن بھی پِس سکتا ہے کیونکہ اگر گھن کی مقدار آٹے سے بھی زیادہ ہو تو پھر پیسنے
والے کیا کریں‘ ویسے بھی گھن کو آٹے سے علیحدہ کر کے بھی نہیں پیسا جا سکتا اور دونوں کی شامت اکٹھی ہی آتی ہے‘ خدا بُرے وقت سے بچائے‘ جس طرح اس نے وزیراعلیٰ سمیت ہم سب کو بچایا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر بچایا ہے‘ حتیٰ کہ خاکسار کو ایک بار پھر وزیر بنا دیا گیا ہے اور جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیگناہوں کا خون بھی رائگاں جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کو پکڑنا چاہیے‘‘ اور ان دہشت گردوں کی جہاں سے مالی امداد ہوتی ہے‘ یہ ان کی قسمت کی بات ہے اور یہ ادارے اگر ان کو بھی پکڑنا چاہیں تو آخر کس کس کو پکڑیں گے کہ بات تو بہت اوپر تک پہنچتی دکھائی دیتی ہے اور اس کارروائی کی آنچ یہاں تک بھی آ سکتی ہے کیونکہ ہر جگہ ایسے چغل خور بھی موجود ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ انتہائی معزز لوگوں کو بھی ملوث کرنے سے نہیں چوکتے اوراگر چغل خوری کی یہ روایت اسی طرح قائم رہی تو کڑا وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے اور اسی لیے ہمیں بھی محتاط رہنے کی سخت ضرورت ہے کہ احتیاط اور پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
عمر بھر دیکھا کیے اندر کے ہنگامے، ظفرؔ
آج کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کوئی باہر بھی تھا